جب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک پیج پر تھی تو اس سے ملک کا فائدہ ہوا: عمران خان

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پشاور کے علاقے پولیس لائنز میں ہونے والے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پشاور میں بہت دردناک اور تکلیف دہ سانحہ ہوا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس کو سیاسی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عمران خان نے عوام سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پشاور میں بہت دردناک اور تکلیف دہ سانحہ ہوا ہے اور دہشت گردی پر پھر سے بات چیت شروع ہو گئی ہے، دہشت گردی میں آہستہ آہستہ کمی آئی اور ہم پھر اس میں اضافہ شروع ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی خیبر پختونخوا پولیس نے بہت قربانیاں دیں اور جب ہم 2013 میں حکومت میں آئے تھے تو اس وقت تک 700 سے زائد صوبے کے پولیس اہلکار شہید ہو چکے تھے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ اتنا بڑا سانحہ ہوا ہے لیکن اس کو سیاسی بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پچھلے 20سال سے ایک عذاب بھگت رہے ہیں، ہم نے افغان جہاد لڑا اور یہ سارا افغان جہاد قبائلی علاقوں سے لڑا گیا لیکن اس میں القاعدہ جیسے گروپس کے مجاہدین بھی جاتے تھے لیکن قبائلی علاقے کے لوگوں نے اس میں بڑے پیمانے پر شرکت کی۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ 2001 کے بعد جب جنرل مشرف نے فیصلہ کیا کہ ہم امریکا کی جنگ میں شامل ہوں گے تو پراپیگنڈا سے کسی کی جنگ کو اپنی جنگ بنایا گیا، میں تب سے کہتا گیا ہوں کہ یہ ہماری جنگ نہیں تھی، اس کی دو وجوہات تھیں جس میں پہلی یہ تھی کہ ہم نے کہا کہ افغانستان میں جو بھی قبضہ کرے گا اس کے خلاف لڑنا جہاد ہے جسے قوم نے بھی قبول کیا، ہم نے شرکت بھی کی اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں اس سے ڈالرز بھی آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب 2001 میں امریکا افغانستان آنے کا فیصلہ کرتا ہے تو جن قبائلیوں نے سوویت یونین کے خلاف جانوں کی قربانیاں دیں ہم نے ان سے کہا کہ اگر اب آپ نے امریکیوں کے خلاف آپ لڑے تو یہ دہشت گردی ہو گی، سب کو پتا تھا کہ اس کا ردعمل آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ 1948 میں قائد اعظم نے قبائلی علاقوں سے فوج واپس بھیجی اور اس کے بعد پہلی مرتبہ 2003 میں ہم نے پہلی بار قبائلی علاقوں میں فوج بھیجی، اس وقت میں نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ اگر آپ قبائلی علاقوں کی تاریخ پڑھ لیں تو کبھی بھی یہ حماقت نہیں کریں گے کیونکہ وہ وہاں پر ہماری طاقت تھے اور ہمیں وہاں فوج رکھنے کی بھی ضرورت نہیں تھی، پاکستان سے زیادہ قبائلی علاقہ پرامن تھا۔
عمران خان نے کہا کہ جب ہم نے قبائلی علاقے میں فوج بھیجی تو وہاں سے مسئلے شروع ہوئے، جو لوگ افغانستان میں امریکی مداخلت کو غلطی سمجھتے تھے انہیں بہت غصہ آیا، سارے پشتون علاقے اسی ناراضی کے سبب 2002 کے الیکشن میں ایم ایم اے کو ووٹ دیا کیونکہ ایم ایم اے واحد پارٹی تھی جو یہ کہہ رہی تھی کہ امریکا نے غلط کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جیسے جیسے امریکا کی جنگ میں پڑتے رہے اس کا ردعمل دہشت گردی کی شکل میں آتا رہا، آہستہ آہستہ پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی بڑھتی گئی اور مجھے افسوس کہنا پڑتا ہے کہ جب میری طرح کے لوگ کہتے تھے کہ یہ غلط ہو رہا ہے تو مجھے طالبان خان کہا گیا، میں بار بار کہتا تھا کہ کوئی فوجی حل نہیں ہے کیونکہ افغانستان والے کسی باہر والے تسلیم ہی نہیں کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2006 سے ڈرون حملے شروع ہو گئے جو آہستہ آہستہ بڑھتے گئے، ڈرون حملوں میں زیادہ تر معصوم لوگ مارے جاتے تھے اور وہ بدلہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور پولیس سے بدلہ لیتے تھے۔
عمران خان نے کہا کہ 2013 میں ہماری حکومت آئی تو پولیس کے حوصلے پست تھے، ہم نے اصلاحات کیں اور مرحوم آئی جی درانی کو لے کر گئے، ہم نے پولیس کمانڈوز کی ٹریننگ کرائی جس کی بدولت پختونخوا کی پولیس پیروں پر کھڑی ہوئی اور ہم نے اس جنگ میں کامیابی سے واپسی کی۔ انہوں نے کہا کہ 2018 میں ہماری حکومت آئی تو ہم نے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان بات چیت میں سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں، ہم کوشش کرتے ہیں کیونکہ ہمارا مفاد یہ تھا کہ وہاں امن ہو گا تو پاکستان میں اس کا فائدہ ہو گا کیونکہ اس وقت پچھلی افغان حکومت پاکستان کے بجائے بھارت کی حامی تھی اور وہ ہماری کوئی مدد نہیں کرتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ 2021 کی گرمیوں میں امریکا نے انخلا کی تاریخ کا اعلان کیا تو مجھے خوف آنا شروع ہو گیا کہ افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی، ہماری خفیہ ایجنسیوں نے اطلاع دی کہ افغانستان کی 3لاکھ فوج ہے اور 60 سے 70 ہزار طالبان ہیں لہٰذا وہاں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی تو ہمیں خدشہ تھا کہ اس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میرا جنرل باجوہ سے کوئی اختلافات نہیں تھے، ہم ایک پیج پر تھے، جب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور منتخب حکومت ایک پیج پر تھی تو اس ملک کا بڑا فائدہ ہوا، کافی اچھے اچھے کام کیے لیکن اختلاف پہلا یہ ہوا کہ ایکسٹینشن کے بعد جنرل باجوہ نے بار بار ہمیں کہا کہ ان کو این آر او دے دو اور احتساب سے پیچھے ہٹ جاؤ لیکن میں نے اس سے انکار کردیا کیونکہ میں تو سیاست میں آیا ہی قانون کی حکمرانی کے لیے تھا۔