انتخابات کی تاریخ کا کیس: چار ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا، باقی بینچ ازخود نوٹس سنتا رہے گا: چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ 4 معزز ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے، عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، آئین کی تشریح کے لیے عدالت سماعت جاری رکھے گی۔
از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ اس بات کا تعین کرے گی کہ آئین کے تحت مختلف حالات میں کسی صوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری اور اختیار کس کے پاس ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر سماعت کر رہے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن جسٹس، مظاہر اکبر نقوی، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسسٹس اطہر من اللہ نے بینچ میں شامل ہونے سے معزرت کی ہے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 4 معزز ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے، عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، آئین کی تشریح کے لیے عدالت سماعت جاری رکھے گی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کیا کہتا ہے اس کا دارو مدار تشریح پر ہے، کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کرکے ختم کرنے کی کوشش کریں گے، جب تک حکمنامہ ویب سائٹ پر نہ آجائے جاری نہیں کرسکتے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکمنامہ سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آگیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو۔
دوران سماعت علی ظفر نے کہا کہ گورنر پنجاب نے نگران وزیراعلی کے لیے دونوں فریقین سے نام مانگے، ناموں پر اتفاق رائے نہ ہوا تو الیکشن کمیشن نے وزیراعلی کا انتخاب کیا، الیکشن کمیشن نے گورنر کو خط لکھ کر پولنگ کی تاریخ دینے کا کہا۔
علی ظفر نے کہا کہ گورنر نے جواب دیا انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی تو تاریخ کیسے دیں؟ آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں، کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا، 90 دن کی آئینی مدت کا وقت 14 جنوری سے شروع ہوچکا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل کا نوٹ کو حکم میں شامل ہونے سے پہلے پبلک ہونا غیر مناسب ہے، عدالتی احکامات پہلے ویب سائٹ پر آتے ہیں پھر پبلک ہوتے ہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فل کورٹ کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ کی درخواست بھی سن کرنمٹائی جائے گی، علی ظفر نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب نےاسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنرکوارسال کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گورنر پنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ گورنر کو کون مقرر کرتا ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر کے تحلیل کرنے اور آئینی مدت کے بعد ازخود تحلیل ہو جانے میں فرق ہے۔
سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت گورنر یا الیکشن کمیشن کو تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے، نے کہا کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، ہاہیکورٹ نے قرار دیا انتخابی عمل الیکشن سے پہلے شروع اور بعد میں ختم ہوتا ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن اور گورنر کی ملاقات بے نتیجہ ختم ہوئی، صدر مملکت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے خود تاریخ مقرر کر دی۔
علی ظفر نے کہا کہ گورنر کے مطابق شق 208چار کے تحت یہ تاریخ الیکشن کمیشن یاکوئی اوراتھارٹی دے گی، مجھے ہدایت دی گئی ہے کی سیکیورٹی اورمعاشی صورتحال کے تحت گورنر سے مشورہ کرے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ حکم لازمی قابل پابندی نہیں ہے ، مختصر یہ ہے کہ گورنر تاریخ دینے سے انکار کردیا، الیکشن کمیشن نے خط کا جواب دے دیا ہے ، اب بال آپ کے کورٹ میں ہے ، آپ فیصلہ کریں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کے بعد کیا ہوا، ایڈوکیٹ علی ظفر نے کہا کہ اس کے بعد سے اب تک کچھ نہیں ہوا، عدالت نے کہا کہ پی ٹی آئی نے گورنر کیخلاف رٹ ٹیشن دائرکی، اس کا کیا فیصلہ ہوا ، علی ظفر نے کہا کہ اس میں بھی کہا گیا ہے گورنر مشاورت کرکے تاریخ کا فیصلہ کرے، آرٹیکل 108اور 109کے تحت الیکشن کمیشن الیکشن کروانے کا پابند ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ ملاقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، عدالت نے کہا کہ یعنی عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کئی گئی ؟ کیا یہ میٹنگ کے منٹس بھی میڈیا میں رپورٹ ہوئے ؟
علی ظفر نے کہا کہ یہ میڈیا رپورٹس ہیں کہ ایک اخبار نے تفصیل شائع کی، جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اس کے بعد انٹراکورٹ اپیل فائل ہوئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو مجھے سمجھ آ رہی ہے اس کے مطابق الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ تاریخ کے لیے مشاورت آٸین میں شامل نہیں، ہاٸی کورٹ نے گورنر سے مشاورت کا کہہ دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ گورنر سے مشاورت کا فیصلہ ہمارے راستےمیں ہے ، الیکشن کمیشن اگر خود تاریخ دیدے تو کیا یہ توہین عدالت ہوگی؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ سب تاخیری حربے ہیں ، الیکشن کمیشن کا تاریخ دینا آٸینی عمل ہے، پہلے آپ نہیں ، پہلے آپ چل رہے ہیں، جس کا نتیجہ تاخیر ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ازخود نوٹس میں سوال ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا، وکیل علی ظفر نے کہا کہ کسی نے تو انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس میں الیکشن دس سال تاخیر کا شکار ہو جائے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ دوسرا فریق بتا دے الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے ، جسے یہ کہتے ہیں اسے تاریخ کا اعلان کرنے دیں ، خیبرپختونخوا میں صورتحال مختلف ہے، خیبرپختونخوا میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے پر دستخط کیے، خیبرپختونخوا میں گورنر الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کر رہا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں کیس کی اگلی سماعت کل یے، چیف جسٹس نے کہا کہ خیبرپختونخوا پشاور ہائیکورٹ میں کل جواب جمع کرانے کے لیے 21 دن دیے ، خالص آئینی سوال ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ گورنر خیبرپختونخوا کہتے ہیں تاریخ دینے کے لیے نوے روز کی مہلت ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 90 دن تاریخ کے لیے ہیں تو الیکشن کب ہوں گے۔
اس دوران عدالت نے آج ہی گورنر خیبرپختونخوا کے سیکریٹری کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیدھا سادھا کیس ہے 18 جنوری سے گورنر تاریخ دینے میں ناکام ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں 3 آئینی درخواستیں زیر التوا ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 21 دن کا نوٹس کیوں دیا فریقین کو ؟
چیف جسٹس نے کہا کہ قانونی نقطہ طے کرنا ہے یہ کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں جو اتنا وقت دیا گیا، علی ظفر نے کہا کہ کے پی اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ کے پی میں انتخابات کے حوالے سے کیا پیشرفت ہوئی؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا گورنر کہ سکتا ہے کہ دہشت گردی ہو رہی ہے، مشاورت کی جائے؟ علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں گورنر کے پی کو ایسا خط لکھنے کا اختیار نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کے پی میں بھی اسمبلی تحلیل ہوئی ہے وہاں کیا پوزیشن ہے؟
علی ظفر نے کہا کہ گورنر کے پی نے الیکشن کمیشن کو سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا کہا ہے، گورنر کے پی نے اپنے خط میں سیکیورٹی کو بنیاد بنایا ہے۔
اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون جاری کرتا ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری کر سکتا ہے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نوٹیفکیشن کے مطابق 48 گھنٹے گزرنے کے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ کے مطابق نوٹیفکیشن حکومت نے جاری کیا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نوٹی فکیشن سے پہلے کسی نے تو حکم جاری کیا ہی ہوگا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ گورنر کا کردار پارلیمانی جمہوریت میں پوسٹ آفس کا ہی ہے، کیا گورنر اپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ کوئی سمری منظور کرے یا واپس بھیج دے، اسمبلی تحلیل پر گورنر کا کوئی صوابدیدی اختیار نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر اگر سمری منظور نہ کرے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ گورنر کی صوابدید یہ نہیں کہ اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر سمری واپس بھیجے تو بھی اڑتالیس گھنٹے کا وقت جاری رہے گا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ گر گورنر سمری واپس بھیجے تو 48گھنٹے کا وقت کہاں سے شروع ہوگا؟ علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری واپس نہیں بھیج سکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری کو واپس نہیں بھیج سکتا، چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کے لیے گورنر کو کسی سمری کی ضرورت نہیں۔
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 112تھری کے تحت گورنر ازخود اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے؟ آرٹیکل 112 میں 2 صورتیں ہیں کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دیتا ہے یا نہیں؟ آرٹیکل 112 کی ذیلی شق ون میں گورنر کی صوابدید ہے کہ تحلیل کریں یا نہیں، اب بتائیں کہ کیا گورنر کے پاس صوابدید ہے یا ان کا کردار مکینیکل ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر اسمبلی 48 گھنٹے بعد تحلیل ہوتی ہے تو آئین کے تحت نوٹیفکیشن کون کرتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گورنر کے صوابدیدی اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ علی صاحب آپ سب کے ہی سوالات پر کہہ رہے ہیں ”جی بالکل“، کیا آپ سب کے سوالات سے اتفاق کرتے ہیں؟
قبل آج سپریم کورٹ نے پنجاب، خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا۔
 حکم نامہ 9 رکنی لارجر بینچ نے جاری کیا، سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ تحلیل ہوگیا، بینچ کی تشکیل نو کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیجوا دیا گیا۔
9 رکنی بینچ کے حکم نامے میں ایک جج کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے، تحریری حکم نامے کے مطابق گزشتہ سماعت پر 3 آئینی سوالات کو سنا گیا، فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحیی آفریدی اور جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹ شامل ہیں۔
چیف جسٹس کی جانب سے اپنی سربراہی میں بنائے گئے 9 رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کا مشترکہ بیان پڑھتے ہوئے کہا تھا کہ 2 ججز کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض ہے، اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی اپنے آپ کو بینچ سےالگ کردیں۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے یہ ازخود نوٹس ایسے وقت میں لیا گیا جب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پیر کے روز یکطرفہ طور پر پنجاب اور خیبر پختون خوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر مشاورت کے لیے ان کی دعوت کو مسترد کر دیا گیا تھا۔