ایف بی آرکوملنے والی معلومات بطورثبوت استعمال نہیں ہوسکتیں: چیف جسٹس

نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا ہے، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بنچ کا حصہ ہیں۔ سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پرسماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے ہیں کہ سابق صدر آصف زرداری کیخلاف سوئس مقدمات زائدالمیعاد ہونے پر ختم ہوئے،عدم شواہد پر نہیں۔چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل کو ساڑھے 12 بجے تک دلائل ختم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آج کیس ختم کرنا ہے۔ نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پرسماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی خصوصی بینچ کررہا ہے۔ بینچ کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس منصورعلی شاہ شامل ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث دلائل دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ اجازت ہو تو مخدوم علی خان (وفاق کے وکیل ) سےایک بات پوچھوں، کل ہم نے ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی۔ ایم ایل اے کےتحت حاصل شواہد کی حثیت ختم کردی گئی، اب نیب کوخود وہاں سروسزلینا ہوںگی جومہنگی پڑیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ایم ایل اے کےعلاوہ بھی بیرون ملک سےجائیدادوں کی رپورٹ آئی ہے، قانون میں تواس ذریعے سے حاصل شواہد قابل قبول ہی نہیں۔ نیب نےترامیم کے بعد ریفرنسز واپس ہونے سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایف بی آرکا بیرون ملک سےحاصل کردہ ریکارڈ قابل قبول شواہد کےطورپرنہیں پیش کیاجاسکتا، کیا آئین پاکستان میں شکایت کنندہ کے حقوق درج ہیں؟۔ وفاق کے وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ آئین میں صرف ملزم کےحقوق اور فیئرٹرائل کے بارے میں درج ہے، آئین پاکستان شکایت کنندہ کے حقوق کی بات نہیں کرتا۔ کل یہاں کہاگیاکہ نیب تحقیقات پراربوں روپےلگے،اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی نیب مقدمات میں سزا کی شرح 50 فیصد سے کم تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم میں بھی سزاکی شرح 70فیصد سے کم ہے، ان میں سےبھی کئی مقدمات اوپرجاکر آپس میں طے ہوجاتے ہیں۔ ہم یہ ڈیٹا دیکھ رہےہوتےہیں جوتشویش کی بات ہے،قتل کےمقدمات میں30 سے40 فیصد لوگوں کوانصاف نہیں ملتاجبکہ ریاست کا بنیادی کام ہی لوگوں کو انصاف دینا ہوتا ہے۔ وکیل نے کہا کہ کئی متاثرین عدالتوں میں ملزمان کوشناخت کرنے سے انکارکردیتے ہیں۔ متاثرین کویقین ہی نہیں ہوتاکہ وہ ملزمان کی شناخت کے بعد محفوظ رہیں گے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی تعاون کےذریعےملنے والےشواہد قابل قبول نہیں رہے۔ جس پروکیل نے کہا کہ ایف بی آرکو بیرون ممالک سے اثاثوں کی تفصیلات موصول ہوجاتی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آرکوملنے والی معلومات بطورثبوت استعمال نہیں ہوسکتیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ ملزم سے برآمد ہونے والا مواد بھی نیب نے ہی ثابت کرنا ہوتا ہے،بیرون ملک سے لائے گئے شواہد بھی ثابت کرنا نیب کی ہی ذمہ داری ہے۔ عدالتیں شواہد کو قانونی طور پر دیکھ کر ہی فیصلہ کرتی ہیں۔ سوئس عدالتوں نےآصف زرداری کیخلاف اپنے ملک کےشواہد تسلیم نہیں کیے تھے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ سوئس مقدمات تو زائدالمعیاد ہونے کی وجہ سے ختم ہوئے تھےعدم شواہد پرنہیں۔ بیرون ملک سے حاصل قانونی معاونت کی زیادہ اہمیت نہیں وفاق کے وکیل کا کہناتھا کہ اٹارنی جنرل نے سوئس حکام سے معاونت کس قانون کے تحت مانگی تھی ،کوئی نہیں جانتا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب پر دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ممالک سے باہمی قانونی تعاون کےذریعےشواہد لیے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بیرون ممالک سے حاصل کردہ شواہد کی کیا قانونی حیثیت ہے اور قانونی معاونت کی کتنی گنجائش ہے ؟۔ وکیل نے بتایا کہ بیرون ملک شواہد کے دفترخارجہ کے ذریعے تصدیق کا ایک پورا عمل ہوتا ہے۔ بیرون ملک سے حاصل قانونی معاونت کی زیادہ اہمیت نہیں رکھی گئی۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ، آج کیس ختم کرنا ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مئی 2023 سے پہلے نیب ریفرنسزکا واپس ہونا سنجیدہ معاملہ ہے ، ہمارے پاس نیب ریفرنس واپس ہونے سے متعلق تفصیلات پرمبنی فہرست ہے۔ کہ بات یہ ہے کہ ہم نے آج کیس ختم کرنا ہے،ہمارے پاس جمعہ کی وجہ سے آج ساڑھے بارہ بجے تک کا وقت ہے۔ انہوں نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کوساڑھے بارہ بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ پیر کو کچھ وقت لیں گے۔ اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پیرتک وقت نہیں تحریری طورپرمعروضات دے دیں، ہم دیکھ لیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حال ہی میں سندھ سے نیب مقدمے میں ملزم پلی بارگین پرآمادہ ہوا لیکن نیب نے ملزم کے آمادہ ہونے پرپلی بارگین کی رقم بڑھادی جوکہ مضحکہ خیزعمل ہے۔ شکایت کنندہ کا بھی توخیال رکھنا ہوتا ہے۔ قانون کی کون سی شق ہے جوکہتی ہے کہ انصاف کے ترازومیں توازن برقرارہونا چاہیے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کرمنل لاء توکہتا ہے کہ ، ’ملزم قانون کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے‘، کسی کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے تو وہ عدالت آئے گا۔