غزہ: اسرائیلی فوج کے نہتے فلسطینیوں پر حملے جاری، مصری صحافی سمیت مزید 125 فلسطینی شہید

غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے، رہائشی علاقوں پر اسرائیلی فوج کی بمباری میں مصری میڈیا کے صحافی اور مواصلاتی کمپنی کے دو اہلکاروں سمیت مزید 125 فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں 265 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔ مصری ٹی وی نے تصدیق کردی ہے کہ ان کے صحافی یزان الزویدی غزہ میں اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں۔ مصری ٹی وی نے اپنے بیان میں انسانی حقوق اور صحافیوں کی عالمی تنظیموں سے اسرائیل کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اسرائیلی فوج نے یزان الزویدی کو غزہ میں ٹارگیٹ بنا کر شہید کیا ہے۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کا کہنا تھا کہ اسرائیلی افواج کے ہاتھوں شہید ہونے والے صحافیوں کی تعداد 82 ہو چکی ہے جس میں 75 فلسطینی صحافی شامل ہیں۔ غزہ میں مواصلاتی نظام کا بلیک آؤٹ اب بھی جاری ہے، مواصلاتی اور انٹرنیٹ سروسز دو روز سے معطل ہیں۔ ادھر مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے، چھاپا مار کارروائیاں کے دوران مزید 5 فلسطینی نوجوان شہید کردیے گئے، صیہونی فوج کی جانب سے گزشتہ 100 روز میں 5 ہزار 875 فلسطینیوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق مغربی کنارے میں مختلف کارروائیوں کے دوران اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 16 سالہ خالد ہمیدات اور 17 سالہ سلیمان کنان سمیت 5 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی افواج اور شدت پسند یہودیوں کے ہاتھوں 94 بچوں سمیت شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 352 سے متجاوز ہو چکی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے غزہ جنگ کے 100 دنوں کو منقسم انسانیت پر دھبّا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ رواں برس کے آغاز سے انسانی امداد کی رسائی کے معاملے پر اسرائیلی پابندیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔طے شدہ امداد میں سے اب تک صرف 21 فیصد انسانی امداد غزہ بھیجی جا سکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو بے نقاب کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر جاری اپنے پیغام میں کہا کہ غزہ کے لوگوں کیلئے زندگی جہنم بنا دی گئی ہے، یہاں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں، ہر وقت منڈلاتے خطرات کا خوف الفاظ میں بیان کرنے سے باہر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی افواج کی جانب سے صحت مراکز پر 300 سے زائد حملے کیے گئے اور تاحال امداد کی رسائی کیلئے مشکلات درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت غزہ میں صرف 15 اسپتال کام کر رہے ہیں اور وہاں پر بھی صرف محدود طبی خدمات فراہم کی جا رہی ہیں جبکہ انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے افراد کو انتہائی ضروری مدد فراہم کرنے سے بھی روکا جار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے اور مزید انسانی جانوں کے نقصان کو روکنے کیلئے جو کچھ ممکن ہے وہ کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی تنظیم ریڈ کراس کے سیکرٹری جنرل نے اپنے ایک بیان میں غزہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے لوگوں نے بہت تکلیفیں دیکھی ہیں۔ ریڈ کراس انٹرنیشنل فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل جگن چیپاگین نے غزہ کے مظلوم فسلطینیوں کی بحالی کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی تنازعہ یا بحران میں صحت کی سہولیات تک رسائی زندگی اور موت کا سوال ہوتا ہے، غزہ میں صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک انسانی اور اخلاقی فرض ہے کہ غزہ کے لوگوں کو صحت کی سہولیات تک محفوظ رسائی فراہم کی جائیں۔ دوسری جانب اسرائیلی جارحیت کے ردعمل میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کی جوابی کارروائیاں بھی جاری ہیں، القسام بریگیڈز کے مزاحمت کاروں نے خان یونس میں اسرائیلی فوجیوں پر وار کرکے مزید 2 اسرائیلی فوجی افسر ہلاک اور کئی اسرائیلی ٹینک تباہ کردیے۔ لبنانی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کی جانب سے بھی شمالی اسرائیل کے علاقے میں میزائل حملہ کیا گیا جس میں دو اسرائیلی ہلاک ہوگئے۔ غزہ میں جنگ کے 100 روز مکمل ہونے پر چین نے ایک بار پھر آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کردیا ہے جبکہ امریکا کا کہنا ہے کہ غزہ میں کارروائیوں کی شدت کم کرنے کیلئے اسرائیل سے بات چیت کر رہے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکا غزہ میں موجود یرغمالیوں کی رہائی تک مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ مختلف ملاقاتوں میں امریکی یرغمالیوں کے خاندان کے لوگوں نے مجھے جو باتیں بتائی ہیں یا جن احساسات سے وہ لوگ گزرے ہیں میں اس درد اور تکلیف کو کبھی بھول نہ پاؤں گا تاہم بائیڈن نے اپنے بیان میں غزہ میں 24 ہزار فلسطینیوں کی شہادتوں کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ خیال رہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری سے شہید فلسطینیوں کی تعداد 24 ہزار 190 سے متجاوز ہوچکی ہے جبکہ 60 ہزار 317 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت سے شہید اور زخمی ہونے والے فلسطینیوں میں نصف سے زائد تعداد صرف بچوں اور خواتین پر مشتمل ہے۔