سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کر دی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے سے متعلق فل کورٹ بنانے کی درخواست پر گزشتہ روز محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ سویلینزکے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے کی، بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے گزشتہ روز محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ فل کورٹ ستمبر تک دستیاب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی چھٹیاں چل رہی ہیں، تمام ججز کی نجی مصروفیات بھی ہیں جو اس کیس کی وجہ سے معطل ہیں۔ خیال رہے کہ حکومت نے سویلینز کے خصوصی عدالتوں میں ٹرائل پر فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔ واضح رہے کہ 21 جون کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ 20 جون کو جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کے توسط سے دائر درخواست میں سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی تھی۔ وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔ اس درخواست سے قبل مختلف شہروں سے سول سوسائٹی کے 5 ارکان نے اپنے وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے 9 مئی کے تشدد کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست دائر کی تھی۔ اسی طرح 18 جون کو پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اعتزاز احسن نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ اعتزاز احسن کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست دائر کی جس میں شہریوں کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر ربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا، سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں، آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے۔ خیال رہے کہ رواں سال 9 مئی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو پیراملٹری فورس رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا جس کے بعد ملک بھر میں ہوئے پر تشدد احتجاج کے دوران املاک کی توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ دیکھنے میں آیا۔ احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے فوجی تنصیبات، بشمول کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ اور پاکستان بھر میں ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس واقعے کے بعد، فوج نے اس دن کو ملکی تاریخ کا ایک ’سیاہ باب‘ قرار دیا تھا اور توڑ پھوڑ میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا تھا۔ بعد میں مزید سخت قدم اٹھاتے ہوئے حکومت نے سول اور فوجی تنصیبات پر حملے اور آتش زنی کرنے والوں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا۔
اہم خبریں
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments
ہمارا فیس بک پیج
خصوصی فیچرز
Archives
- May 2024
- April 2024
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- December 2023
- November 2023
- October 2023
- September 2023
- August 2023
- July 2023
- June 2023
- May 2023
- April 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- December 2022
- November 2022
- October 2022
- September 2022
- August 2022
- November 2016
- May 2016
- November 2015
- June 2015