فوجی قیادت تبدیل ہونے سے اسٹیبلشمنٹ کے رویے میں ہمارے لیے کوئی فرق نہیں پڑا: عمران خان

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں، سیاسی آدمی ہوں سب سے بات کروں گا ۔۔۔ سوائے چوروں کے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ فوجی قیادت تبدیل ہونے سے اسٹیبلشمنٹ کے رویے میں ہمارے لیے کوئی فرق نہیں پڑا، ہم پر جنرل باجوہ کے دور میں کیسز بنے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کبھی نہ آرمی چیف کو بات کرنے کی دعوت دی نہ شہباز شریف کو، جس جماعت کے ساتھ ملک کے عوام ہوں تو اسے بیساکھیاں درکار نہیں ہوتیں، صرف ملک میں انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ فوجی قیادت تبدیل ہونے سے اسٹیبلشمنٹ کے رویے میں ہمارے لیے کوئی فرق نہیں پڑا، ہم پر جنرل باجوہ کے دور میں کیسز بنے، اس سے پہلے کبھی سینیئر لوگوں پر اتنا حراستی تشدد نہیں ہوا، سختیاں بڑھ گئی ہیں۔
عمران خان نے کہا سپریم کورٹ نے 90 دن میں الیکشن کرانے کا حکم دیا۔،صدر نے بھی اعلان کردیا لیکن جب ہم نے انتخابی ریلی کی تو پولیس آگئی، گاڑیاں توڑی گئیں، واٹر کینن استعمال ہوا، لوگوں کو گرفتار کیا گیا، نگراں حکومت کا کام ہوتا ہے انتخابات کروانا، یہ کیسے روک سکتے ہیں؟ اگر الیکشن کروانا ہیں تو انتخابی مہم اور ریلی کے بغیر الیکشن کیسے ہوتے ہیں؟
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ حکومتی اتحادی جماعتیں خوفزدہ ہیں، چند ماہ میں ہونے والے 37 ضمنی انتخابات پی ٹی آئی جیت چکی ہے، جب کہان کی شہرت تو یہ ہے کہ یہ خود سڑکوں پر نکل نہیں سکتے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ الیکشن نہ ہوں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ انتشار چاہتے تھے، ہم چاہتے تو رات تک لڑائی چلتی رہتی لیکن ہم ان کو موقع نہیں دینا چاہتے کہ یہ انتشار کو وجہ بنا کر الیکشنز سے نکل جائیں۔
عمران خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تاریخیں دی ہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے اسے حکم دیا ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت الیکشن نہیں کراوانا چاہتی ہے، ابھی تک ہر قسم کا بہانہ کیا جا رہا ہے کہ کیوں الیکشن نہیں ہونا چاہیے؟ مجھے ڈر ہے کہ یہ کسی بڑی شخصیت کا قتل کروا دیں گے جیسے بینظیربھٹو کا ہوا، ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح الیکشن سے نکلیں۔
سابق وزیراعظم نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن نہ ہوئے تو یہ توہین عدالت ہو گی، یہی آئین و قانون کہتے ہیں، اگر یہ نہیں کروائیں گے تو آئین و قانون ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ چاہتے ہیں میں ڈس کوالیفائی ہو جاؤں یا جیل چلا جاؤں اور یہ الیکشن جیت جائیں۔
بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں قوم موجودہ حکومتی جماعتوں کے خلاف ہو چکی تھی اس لیے میں جیتا اور اب جو مہنگائی ہوئی ہے اس سے تو یہ جماعتیں بالکل دفن ہو چکی ہیں۔
پی ٹی آئی کے تنظیمی ڈھانچے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وائس چیئرمین پارٹی کی نمبر ٹو قیادت ہوتا ہے، پرویز الٰہی نے اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ برداشت کیا، وہ مشکل وقت میں ہمارے ساتھ رہے اس لیے انھیں عزت دینے کے لیے پارٹی کا عہدہ دیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میری ٹانگ میں جو زخم ہیں ان کی صحتیابی کی رفتار سست ہے، ڈاکٹرز نے چلنے اور کھڑے رہنے سے منع کیا تھا لیکن بعد میں لاہور اور اسلام آباد کی عدالتوں میں گیا مگر وہاں سکیورٹی نہیں تھی، وزرات داخلہ نے بھی کہا کہ میری جان کو خطرہ ہے مجھے پتا ہے میری جان کو خطرہ ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ہمارے وکیل نے کہا کہ سیکیورٹی کی ضمانت دیں ورنہ ویڈیو کانفرنس کر لیں، جو آج کل ہوتی ہے، مجھے پر 70 سے زیادہ کیسز ہیں، کیسز عجیب نوعیت کے ہیں جو عدالت میں جاتے ہی ختم ہو جائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ چاہتے ہیں میں انتخابی مہم نہ چلاؤں، یہ کپتان کے بغیر میچ کھیلنا چاہتے ہیں۔