لنڈا یاکارینو ٹویٹر کی نئی سی ای او مقرر

دنیا کے معروف ارب پتی اور تاجر ایلون مسک نے سوشل میڈیا کمپنی کی متنازع خرید کے چھ ماہ بعد ہی ٹوئٹر کا نیا چیف ایگزیکٹو نامزد کر دیا ہے۔ ایلون مسک نے کہا کہ لنڈا چھ ہفتوں میں اپنا کام شروع کر دیں گی۔
امریکی بزنس ٹائیکون نے کہا کہ این بی سی یونیورسل میں ایڈورٹائزنگ کی سابق سربراہ لنڈا یاکارینو ان کی سوشل سائٹ کی کاروباری کارروائیوں کی نگرانی کریں گی، جو کہ خاطر خواہ کمانے کے معاملے میں جدوجہد کر رہی ہے۔
ایلون مسک نے کہا کہ لنڈا چھ ہفتوں میں اپنا کام شروع کر دیں گی۔
جبکہ مسٹر مسک ایگزیکٹو چیئرمین اور چیف ٹیکنالوجی آفیسر کے طور پر اس میں شامل رہیں گے۔
انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ‘سب چیز کرنے والے ایپ ایکس میں اس پلیٹ فارم کی کایا پلٹنے کے لیے لنڈا کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہوں۔’ اس سے قبل انھوں نے نام ظاہر کیے بغیر لکھا تھا کہ انھیں ایک نیا باس مل گیا ہے جس کے بعد قیاس آرائیاں بڑھ گئی تھیں۔
خیال رہے کہ مسٹر ایلون مسک نے پچھلے سال 44 بلین ڈالر میں یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم خریدا تھا اور ان پر دباؤ تھا کہ وہ کمپنی کی قیادت کرنے کے لیے کسی اور کو تلاش کریں اور اپنی توجہ اپنے دیگر کاروباروں پر مرکوز کریں جن میں الیکٹرک کار بنانے والی کمپنی ٹیسلا اور راکٹ بنانے والی کمپنی سپیس ایکس شامل ہیں۔بڑی 500 ٹیک کمپنیوں میں 10فیصد سے بھی کم میں خواتین سربراہ ہیں۔ ایسے میں لنڈا کا امریکہ کی کچھ بڑی میڈیا کمپنیوں کی صفوں میں مسلسل اگے بڑھتے رہنے کے بعد ایک بڑی ٹیک کمپنی میں اعلی ترین مقام پر آنا اپنے آپ میں ایک نادر مثال ہوگی۔
لنڈا یاکارینو کون ہیں؟لنڈا یاکارینو کی پرورش ایک اطالوی-امریکی خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد ایک پولیس افسر تھے جبکہ ان کی والدہ نے کبھی کالج کا منھ نہیں دیکھا۔
پین سٹیٹ سے گریجویٹ کرنے کے بعد انھوں نے این بی سی یونیورسل میں شمولیت اختیار کرنے سے قبل 15 سالون تک ٹرنر انٹرٹینمنٹ میں کام کیا۔ این بی سی یونیورسل میں وہ تقریباً 2,000 لوگوں کی ذمہ دار تھیں اور وہ اس کی اسٹریمنگ سروس کو لانچ کرنے میں بھی شامل تھیں۔
ان کے نمایاں کاموں میں بڑے برانڈز کے ساتھ قریبی تعاون شامل تھا، جس میں پروڈکٹ کی جگہ کے تعین اور ٹیلی ویژن شوز کو اشتہار دینے کے لیے راضی کیا جانا شامل ہے، ان میں ‘سیکس اینڈ دی سٹی’ جیسے متنازع سمجھے جانے والے مواد والے شوز کے لانچ بھی شامل تھے۔
انھوں نے ایپل نیوز، سنیپ چیٹ اور یوٹیوب جیسے نئے میڈیا کے ساتھ بھی رابطے بنائے۔
سنہ 2005 میں اس انڈسٹری کی اشاعت کے ایک پروفائل میں انھیں ایک مصروف، شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اشاعت کے وقت ان کے بچوں کی عمریں 13 اور 9 سال بتائی گئی تھیں۔
اس وقت انھوں نے کہا تھا: ‘میری کوئی ہابی (شوق) نہیں ہے۔’
بزنس انسائیڈر کی کلیئر ایٹکنسن نے دو دہائیوں سے مز یاکارینو کے کیریئر پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اشتہارات میں ان کا تجربہ ٹوئٹر کی مدد کر سکتا ہے کیونکہ مسٹر مسک کے ٹوئٹر سنبھالنے کے بعد سے اس کے اشتہارات کی فروخت میں تیزی سے کمی دیکھی گئی ہے۔
چیف میڈیا نمائندہ ایٹکنسن نے کہا: ’اگر ٹو‏ئٹر پہلے سے بہتر کمانے کی کوشش کر رہا ہے، تو یہ اس کی ابتدا کا اچھا وقت ہوگا اور لنڈا ایسا کرنے کے لیے ایک مثالی شخص ہوں گی۔‘
مز ایٹکنسن نے مزید کہا کہ ’میرے خیال سے وہ اس قسم کی شخصیت ہیں جن کی ایلون مسک کو ضرورت ہے۔ ان کو نہیں بدلا جائے گا۔‘
سنہ 2012 میں وال سٹریٹ جرنل کے مطابق انھیں ان کے بات چیت کے انداز اور قائل کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے ’مخملی ہتھوڑا‘ کہا گیا۔
مسٹر مسک ایگزیکٹو چیئرمین اور چیف ٹیکنالوجی آفیسر کے طور پر اس میں شامل رہیں گےانھیں کون سے چیلنجز درپیش ہیں؟مز یاکارینو کو ایک ایسے کاروبار کو چلانے کے چیلنج کا سامنا ہوگا جو منافع بخش ہونے کے لیے جدوجہد کر رہا اس کے ساتھ ہی انھیں اس بات کے لیے بھی سخت جانچ کا سامنا ہے کہ ٹوئٹر غلط معلومات کے پھیلاؤ کو کس طرح سنبھالتا ہے اور نفرت انگیز مواد کا کیا انتظام کرتا ہے۔
جب مسٹر ایلون مسک نے گذشتہ سال پہلی بار ٹوئٹر کے متعلق اپنے منصوبوں پر بات کرنا شروع کی تو انھوں نے کہا کہ وہ اشتہارات پر پلیٹ فارم کے انحصار کو کم کرنا چاہتے ہیں اور مواد کو معتدل کرنے کے طریقے میں تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ادائیگیوں، انکرپٹیڈ پیغام رسانی اور فون کالز کے لیے اس پلیٹفارم کو وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی یہ کہ یہ ہر مرض کی دوا ہو جسے انھوں ‘ایکس’ کہا تھا۔
 
 
لیکن مسٹر مسک اس وقت تنازع کے درمیان آگئے جب انھوں نے ٹوئٹر کے ٹیک اوور کے بعد ہزاروں عملے کو برطرف کر دیا، جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنھیں بدسلوکی والی پوسٹوں سے نمٹنے کا کام سونپا گیا تھا۔
انھوں نے ٹوئٹر پر اکاؤنٹس کی تصدیق کرنے کے طریقے میں بھی نمایاں تبدلیاں کیں اور بلیو ٹکس کے لیے انھوں نے قیمت متعین کی جسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ناقدین کہا کہ ایسا کرنا غلط معلومات کے پھیلاؤ میں آسانیاں فراہم کرے گا۔
کچھ تبدیلیوں نے ایسے اشتہار دینے والوں میں بھی تشویش پیدا کی، جو اپنے برانڈز کو لاحق خطرات کے بارے میں فکر مند تھے، اور انھوں نے اس کی وجہ سے سائٹ پر اپنے اشتہارات کے لیے کیے جانے والے اخراجات کو روک دیا۔
مسٹر مسک نے آمدنی میں ‘بڑے پیمانے پر’ کمی کا اعتراف کیا ہے۔ حالانکہ گذشتہ ماہ انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ کمپنیاں واپس اپنی نہج پر لوٹ رہی ہیں۔
گذشتہ ماہ ایک اشتہاری کانفرنس میں مز یاکارینو نے مسٹر مسک کا انٹرویو کیا اور ان پر زور دیا کہ وہ کمپنیوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کیا کر رہے ہیں کہ ان کے برانڈز کو خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔
انھوں نے کہا: ’اس کمرے میں موجود لوگ آپ کے منافع کے لیے تیز رفتار راستے کے ساتھ ہیں۔ لیکن کمرے میں کچھ شکوک و شبہات موجود ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر مز یاکارینو کی تقرری کے متعلق فوری طور پر کچھ شکوک و شبہات بھی پائے جا رہے ہیں اور بہت سے لوگ ان کی سیاست کے سرے کی تلاش میں ہیں اور انھیں مبینہ طور پر قدامت پسند کہہ رہے ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کو دائیں بازو والے ‘گلوبلسٹ’ کے طور پر منفی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس فورم کے لیے ان کے کام کو کچھ حلقوں اچھی طرح نہیں لیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ پوپ فرانسس کی حمایت والی کورونا وائرس ویکسینیشن کی مہم میں ان کے کردار کو بھی پذیرائی نہیں ملی۔
بائیں نظریات کے حاملین نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تحت وائٹ ہاؤس کے کھیلوں، فٹنس اور نیوٹریشن کونسل میں ان کی سیاسی شمولیت پر سوال اٹھایا ہے۔
مسٹر مسک ان سے قبلسپیس ایکس اور ٹیسلا میں بھی خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر رکھا ہے لیکن وہ غیر متوقع ہونے اور مطالبہ کرنے والے باس کے طور پر بدنام ہیں۔
یہاں تک کہ یہ اعلان بھی غیر معمولی انداز میں سامنے آیا جب ابھی میڈیا میں قیاس آرائیاں ہی جاری تھیں کہ مز یاکارینو نے این بی سی یونیورسل میں اپنے باس کو بغیر تیاری کے پکڑ لیا۔
امریکہ میں جمعہ کی دوپہر تک مز یاکارینو نے ابھی تک اس بارے میں پر عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔
انڈسٹری پر نظر رکھنے والے یہ جاننے کے لیے متجسس ہوں گے کہ نیویارکر اور مسٹر مسک کے درمیان تعلقات کیسے پروان چڑھتے ہیں۔
مز ایٹکنسن نے کہا کہ ٹویٹر کے دو ایگزیکٹوز کو ماڈریشن سے نمٹنے کے طریقے کے بارے میں ‘مشکل بات چیت’ کا سامنا کرنا پڑے گا، خاص طور پر امریکہ میں 2024 کے صدارتی انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ۔
مز ایٹکنسن نے کہا کہ ’کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ لنڈا ان مشکل انتظامی حالات میں کتنی دیر تک چل سکتی ہیں۔‘