ایبولا وائرس کے خطرات کے باعث ایئر پورٹس پر نگرانی بڑھا دی گئی

کچھ افریقی ممالک میں ایبولا وائرس پھیلنے کی اطلاعات کے بعد وزارت قومی صحت نے مشتبہ مریضوں کو ’آئیسولیٹ‘ کرنے اور علیحدہ رکھنے کے لیے ملک کے تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں اور دیگر داخلی مقامات پر کڑی نگرانی کی ہدایت کی ہے۔
 انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز (آئی ایچ آر) کی ہدایات کے مطابق وزارت قومی صحت نے سرحدی امور اور شعبہ صحت کے محکموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ دوسرے ممالک، خاص طور پر براعظم افریقہ سے آنے والے مسافروں کی اسکریننگ لازمی کریں اور جس شخص میں بھی ایبولا وائرس کی علامات پائی جائیں، اسے فوری طوری پر آئیسولیٹ رکھا جائے۔
اپنے ایک بیان میں وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ افریقی ملک یوگینڈا نے ایبولا کو وبائی مرض قرار دے دیا ہے اور اس وائرس کے پاکستان میں مریضوں یا مسافروں کے ذریعے داخل ہونے کا خدشہ ہے۔
 
عبدل القادر پٹیل نے مزید کہا کہ آئی ایچ آر کی ہدایات کے مطابق نگرانی اور جانچ پڑتال کو بڑھا دیا گیا ہے اور وبائی مرض سے لوگوں کی حفاظت کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں آنے والے تمام مسافروں کی تھرمل اسکریننگ کی جائے گی۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق یوگینڈا کے شعبہ صحت کے حکام نے لیبارٹری سے تصدیق ہونے کے بعد سوڈان سے آنے والے وائرس کی وجہ سے ایبولا وائرس وبا کا اعلان کردیا ہے۔
واضح رہے کہ ایبولا وائرس کا خطرہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب کہ اب سے چند ماہ قبل ہی وزارت صحت نے وفاقی اور صوبائی حکام کو پوری دنیا میں منکی پاکس کیسز رپورٹ ہونے کے بعد چوکس اور الرٹ رہنے کی ہدایت کی تھی۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے مئی میں مشتبہ منکی پوکس کیسز سے ہائی الرٹ رہنے کے لیے حکام کو ایڈوائزری جاری کی تھی۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی ایڈوائزری میں شعبہ صحت کے حکام کو الرٹ رہنے، ملک کے تمام ایئر پورٹس اور انٹری پوائنٹس کی نگرانی کرنے اور متاثرہ مسافروں کی تشخیص کے لیے میڈیکل اسکریننگ کی ہدایت کی تھی۔
سوشل میڈیا پر ملک میں منکی پوکس کے مشتبہ کیس سے متعلق رپورٹس زیر گردش ہونے کے بعد نگرانی کے یہ اقدامات اٹھائے گئے تھے تاہم بعد میں قومی ادارہ صحت نے واضح کیا تھا کہ پاکستان میں منکی پوکس وائرس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔
ایبولا وائرس کیا ہے؟
ایبولا انسانوں اور جانوروں میں پایا جانے والا ایک ایسا مرض ہے جس کے شکار افراد میں دو سے تین ہفتے تک بخار، گلے میں درد، پٹھوں میں درد اور سردرد جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور وہ قے، ڈائریا اور خارش وغیرہ کا شکار ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردوں کی کارکردگی بھی گھٹ جاتی ہے۔
مرض میں شدت آنے کے بعد جسم کے کسی ایک یا مختلف حصوں سے خون بہنے لگتا ہے اور اس وقت اس کا ایک سے دوسرے فرد یا جانور میں منتقل ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، درحقیقت اسے دوران خون کا بخار بھی کہا جاتا ہے اور جب خون بہنے کی علامت ظاہر ہوجائے تو مریض کا بچنا لگ بھگ ناممکن سمجھا جاتا ہے۔
مگر صرف خون نہیں بلکہ پسینے، تھوک اور پیشاب سمیت جسمانی تعلقات وغیرہ سے بھی یہ ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوجاتا ہے، بلکہ ایسا مرد جو اس مرض سے بچنے میں کامیاب ہوجائے اپنے مادہ تولید سے یہ مرض دو سے تین ماہ تک اپنی بیوی میں منتقل کرسکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ چمگادڑوں کے ذریعے یہ افریقہ میں پہلے جانوروں اور ان سے لوگوں میں پھیلنا شروع ہوا اور ایبولا کے شکار افراد کی بڑی تعداد ایک ہفتے میں ہی دنیا سے چل بستے ہیں۔
اگرچہ ابھی تک اس کا کوئی موثر علاج دستیاب نہیں تاہم بیمار افراد کو ہلکا میٹھا یا کھارا پانی پلاکر یا ایسے ہی سیال مشروبات کے ذریعے کسی حد تک بہتری کی جانب لے جایا جاسکتا ہے۔
یہ مرض 1976 میں سب سے پہلے سوڈان میں ظاہر ہوا تھا اور 2013 تک اس کے صرف 1716 واقعات سامنے آئے تاہم رواں برس یہ مغربی افریقہ میں ایک وبا کی شکل میں سامنے آیا اور گیانا، سیریا لیون، لائبریا اور نائیجریا اس سے سب سے متاثر ہوئے ہیں اور اس کی ویکسین کی تیاری کے لیے کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔
ایبولا وائرس پھیلتا کس طرح ہے؟
ایبولا چار طریقوں سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوسکتا ہے، پہلا مریض سے قریبی تعلق اس میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔
دوسرا تھوک، خون، ماں کے دودھ، پیشاب، پسینے ، فضلے اور مادہ تولید سے یہ ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے۔
مریض کے زیراستعمال سرنج کا صحت مند شخص پر استعمال اسے بھی ایبولا کا شکار بناسکتا ہے۔
ایبولا کے شکار جانوروں کا گوشت کھانے یا ان کے بہت زیادہ رہنا۔
وہ چیزیں جو ایبولا کا سبب نہیں بنتیںہوا
پانی
خوراک
مچھر یا دیگر کیڑے
ایبولا سے بچ جانے والے افراد(ماسوائے ایسی خواتین جن کے شوہر اس کا شکار ہوئے انہیں کچھ عرصے تک جسمانی تعلق سے گریز کرنا چاہئے)۔
ان سب سے ہٹ کر یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ مریض کی چھوئی ہوئی اشیا سے یہ مرض کسی اور میں منتقل ہوسکتا ہے اور نہ ہی متاثرہ ممالک سے آنے والے طیاروں کے ذریعے یہ کسی اور ملک میں پہنچ سکتا ہے۔
یہ فلو، خسرے یاایسے ہی عام امراض کی طرح نہیں، بلکہ اس کا بہت کم امکان ہوتا ہے کہ یہ کسی وبا کی طرح ایک سے دوسرے براعظم تک پھیل جائے۔
تاہم متاثرہ علاقوں سے آنے والے افراد اگر اس کا شکار ہوں تو وہ ضرور کسی ملک میں اس کے پھیلاﺅ کا سبب بن سکتے ہیں۔

کیٹاگری میں : صحت