تحریر: سید طلعت شاہ
پاکستان میں بدعنوانی ایک ایسا عفریت بن چکی ہے جو ہمارے اداروں، معیشت اور عوامی اعتماد کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کا “کرپشن پرسیپشن انڈیکس” (CPI) اسکور 28 ہے، جو ہمیں 180 ممالک میں 140ویں پوزیشن پر لا کھڑا کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ جنگ ہاری جا چکی ہے، یا پھر حالیہ اصلاحات اور عوامی بیداری کوئی نئی راہ دکھا سکتی ہے؟
بدعنوانی کے گڑھ: کون سے شعبے سب سے زیادہ متاثر؟
حالیہ رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں بدعنوانی کا سرطان درج ذیل شعبوں میں سرایت کر چکا ہے:
1. پولیس اور عدلیہ:
– پولیس کو “سب سے زیادہ بدعنوان ادارہ” قرار دیا گیا۔ NAB کو موصول ہونے والے 29,386 شکایات میں سے 40% پولیس کے خلاف تھیں۔
– عدالتوں میں مقدمات کی رفتار سست، جبکہ NAB کے صرف 30% مقدمات میں سزا ہوئی۔
2. بجلی اور ٹیکس:
– بجلی کے بلوں میں گھپلے، ٹیکس چوری، اور سرکاری خزانے کی لوٹ مار۔ FIA نے بجلی چوری کے 592 کروڑ روپے وصول کیے۔
– ٹیکس محکمے کی بدعنوانی کے باعث ہر سال 218 ارب روپے ٹیکس چوری ہوتے ہیں۔
3. زمین کی انتظامیہ:
– جعلی دستاویزات، ناجائز قبضے، اور افسران کی ملی بھگت۔ سندھ میں صرف 2021 میں زمینوں کے 2,614 غیرقانونی کیس رجسٹر ہوئے۔
4. صحت اور تعلیم:
– سرکاری اسپتالوں میں مفت ادویات کی بلینڈر مارکیٹ میں فروخت۔ پنجاب کے ایک سروے کے مطابق 68% مریضوں کو رشوت دینا پڑتی ہے۔
حکومتی کوششیں: کاغذی شیر یا حقیقی اقدامات؟
حکومت نے کئی اصلاحی قوانین اور ادارے بنائے، مگر ان کی کارکردگی پر سوالات موجود ہیں:
1. نیشنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو (NAB):
– 1999 سے اب تک 1,200 سے زائد مقدمات درج، مگر صرف 30% فیصلے۔ NAB نے 3,614 ملین روپے کی وصولی کی۔
“سیاسی استعمال”، غیرمتوازن کارروائی۔ مثال کے طور پر، کراچی واٹر سپلائی اسکیم میں “انٹیگریٹی پیکٹ” کے تحت 62 ملین روپے کا ٹھیکہ 249 ملین کی بجائے دیا گیا، جس سے 187 ملین بچائے گئے۔
2. وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (FIA):
– FIA کے 19 اینٹی کرپشن سرکلز ہیں، مگر 2022 میں صرف 550 چالان دائر کیے گئے۔
– اہم کامیابی: سندھ زون-II نے 3,292 ملین روپے جرمانے وصول کیے۔
3. صوبائی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹس (ACEs):
– پنجاب ACE نے 2021 میں 1,476 مقدمات درج کیے، جبکہ سندھ ACE نے 30 اضلاع میں 29 سرکلز کے ساتھ کام کیا۔ حال ہی میں کراچی کے ایک مقامی وکیل نے اینٹی کرپشن ساؤتھ میں غیر قانونی تعمیرات کے سبب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی کرنے والے افسران کے خلاف شکایت درج کرائی۔ شکایات پر عمل درآمد نہ کرتے ہوئے متعلقہ افسر نے سندھ بلڈنگ کے افسرامتیاز الحق شیخ اور پرائیویٹ بیٹر کے ذریعے نظرانہ عقیدت وصول کیا اس نظرانہ عقیدت کے تحت سندھ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے غیر قانونی تعمیرات روکنے والے افسران کے خلاف کاروائی کی درخواست کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، سندھ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ حتی کہ سندھ کے تمام محکمہ جات کرپشن کے گڑ بن چکے ہیں اور پاکستان کی معیشت اور قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچا رہے ہیں.
چیلنجز: وہ دیواریں جو اصلاح کو روک رہی ہیں
1. اداروں کا آپس میں تصادم:
– NAB اور FIA کے درمیان دائرہ اختیار کا تنازع۔ مثال: شکایات دوسرے محکموں کو منتقل کی گئیں۔
2. عدالتی نظام کی سست روی:
– NAB کے 78% مقدمات عدالتوں میں التوا کا شکار۔ 2022 میں صرف 25 کیسز میں سزا ہوئی۔
3. عوامی عدم اعتماد:
– ایک سروے کے مطابق 74% پاکستانیوں کا ماننا ہے کہ “بدعنوانی کے خلاف جنگ جعلی ہے”۔
4. سیاسی مداخلت:
– ACE پنجاب کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق، 35% تحقیقات سیاسی دباؤ کی وجہ سے روک دی گئیں۔ اور سندھ میں کوئی رپورٹ ہی نہیں کیونکہ سندھ میں پورا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے.
امید، جو راستہ دکھاتی ہے:
1. ڈیجیٹلائزیشن:
– PPRA نے ٹھیکوں کی آن لائن بولی کا نظام متعارف کرایا، جس سے 2022 میں 12% بچت ہوئی۔
– FMU نے 2023 میں 1,234 مشکوک لین دین (STRs) کی نشاندہی کی۔
2. عوامی شراکت داری:
– سوشل میڈیا مہمات جیسے #انصاف_دو نے نوجوانوں کو متحرک کیا۔
– ٹرانسپیرنسی انٹرنشنل پاکستان کا “رپورٹ کارڈ سسٹم” جس نے 50 سرکاری دفاتر کی کارکردگی عوامی کی۔
3. بین الاقوامی تعاون:
– IMF کے 204 ملین ڈالر کے قرضے نے Punjab میں مالیاتی انتظام بہتر بنایا۔
– FATF گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد 2023 میں 1.2 بلین ڈالر کی غیرملکی سرمایہ کاری ہوئی۔
تجاویز اور حل:
1. اداروں کی خودمختاری:
– NAB اور ACEs کو سیاسی اثر سے آزاد کیا جائے۔
– عدالتی احتساب کے لیے سپیشل بنچز قائم کیے جائیں۔
2. ڈیٹا کا کھلا اشتراک:
– تمام سرکاری ٹھیکوں، زمین کی منتقلی، اور بجٹ کی تفصیلات آن لائن اپ لوڈ کی جائیں۔
3.عوامی بیداری:
– اسکولوں کے نصاب میں اخلاقیات کے مضامین شامل کیے جائیں۔
– میڈیا کے لیے “اینٹی کرپشن فیلو شپ” پروگرام شروع کیا جائے۔
4. سخت سزائیں:
– بدعنوان افسران کی جائیدادوں کو ضبط کرنے کا قانون مضبوط بنایا جائے۔
– بینک اکاؤنٹس اور ای-ڈیٹا کی مدد سے اثاثوں کا جائزہ لیا جائے۔
“ہم سب کی ذمہ داری”
بدعنوانی صرف حکومت کا نہیں، ہر شہری کا مسئلہ ہے۔ جیسا کہ قائدِ اعظم نے 1947 میں کہا تھا:
ہر شہری کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ اب آزاد مملکت کا حصہ ہے، جہاں کوئی بھی فرد یا گروپ فوقیت کا مستحق نہیں۔”
ہمیں اپنے ووٹ کی حرمت کریں، رشوت سے انکار کریں، اور اداروں پر نظر رکھیں۔ صرف اس وقت پاکستان ایک “حقیقی اسلامی جمہوریہ” بن سکتا ہے جب ہم سب مل کر اس عفریت کو شکست دیں گے۔
تحریر: سید طلعت شاہ
یہ مضمون پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کو تقویت دینے اور عوامی آگاگی کے لیے لکھا گیا ہے۔ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حصے کا چراغ جلائے اور ملک کو اس بحران سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرے۔






