کراچی: کوئٹہ ہوٹلوں کی “چائے” ذائقہ کی قیمت پر موت، سندھ فوڈ اتھارٹی خاموش

کراچی (سید شاہ) شہرِ قائد میں گزشتہ چند برسوں سے عام ناظرین کی توجہ ایک مخصوص طرزِ چائے خانوں کی جانب ہے جو عام بول چال میں “کوئٹہ ہوٹل” کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ چھوٹے مگر رش والے چائے کے ٹھکانے شاہراہوں، دفاتر کے باہر اور گلی کوچوں میں دکھائی دیتے ہیں جہاں جانے والا صارف ایک مخصوص لذت اور سکون محسوس کرتا ہے، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس لذت کے پیچھے سنگین خطرات چھپے ہیں۔
ایک طویل روایت کے بعد کراچی کے روایتی چائے خانوں کی جگہ نئے کوئٹہ طرز کے چائے خانوں نے لے لی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ان ہوٹلوں کی چائے کا ذائقہ ایسا ہے کہ ایک بار پینے کے بعد بار بار جانے کی چاہ پیدا ہو جاتی ہے۔ مگر بعض صحتِ عامہ کے ماہرین اور عوام کا الزام ہے کہ یہ ‘عادت’ کسی فطری کشش کی وجہ سے نہیں بلکہ چائے میں کی جانے والی خطرناک ملاوٹ اور نشہ آور اجزاء کی وجہ سے ہے۔
ماہرینِ صحت کے مطابق ان مقامات پر دو بنیادی مسائل سامنے آئے ہیں۔ نمبر ایک چائے میں افیون نما اجزاء کے استعمال کی شکایات اور دوسرا دودھ کو گاڑھا کرنے کے لئے فارملین جیسی خطرناک کیمیکل کی مبینہ شمولیت۔ شہریوں نے بتایا ہے کہ ملاوٹ شدہ چائے کے مسلسل استعمال سے گردے اور خون کے سرطان جیسے سنگین امراض میں اضافہ دیکھا جانے لگا ہے۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر نوجوان طبقے میں بیماریاں تیزی سے بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ان معاملات کی نگرانی حکومت سندھ  کے زیر انتظام نو مولود ادارے سندھ فوڈ اتھارٹی کی ہے مگر اس ادارے کی غفلت سے عوام کی بڑی تعداد اچانک کسی بڑی بیماری کے باعث اللہ تعالٰیٰ کو پیاری ہو چکی۔  عوامی تحفظ کی ذمے داری رکھنے والی سندھ فوڈ اتھارٹی سے متعلق سخت تنقید سامنے آئی ہے کہ وہ اس طرزِ کاروبار اور ممکنہ خطرناک ملاوٹ کے خلاف موثر اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ شہریوں اور میڈیکل سے وابستہ حلقوں کا اصرار ہے کہ اتھارٹی کے پاس نمونہ لینے، لیبارٹری ٹیسٹنگ، کاروائی اور جرمانے کے اختیارات موجود ہیں، مگر عملی سطح پر مستقل نگرانی، ریڈنگ اور عوامی آگاہی کی مہم کا فقدان ہے۔
تنقیدی حلقوں کا ماننا ہے کہ اگر فوری ایکشن لیا جاتا تو نہ صرف صارفین کی جانوں کو خطرہ کم ہوتا بلکہ غیر معیاری اشیاء فروخت کرنے والے عناصر کو بھی عبرت ملتی۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اتھارٹی کے پاس وسائل اور میکانزم موجود ہونے کے باوجود کارروائی میں سستی یا غفلت کیوں؟ عوامی رائے ہے کہ محض نوٹس لینے سے کام نہیں چلے گا مستقل نگرانی، خفیہ دوروں، فوری نمونہ جات کی جانچ اور خلاف ورزی پر فوری جرمانے ضروری ہیں۔
ماہرین اور شہری مطالبات کے پیش نظر سندھ فوڈ اتھارٹی   پُراثر انسپیکشن ٹیموں کے ذریعے شہر بھر میں خفیہ دوروں کے ذریعے چائے خانوں کا معائنے کرے اور نمونہ جات فوری لیبارٹری ٹیسٹنگ کے لیے بھیجے جائیں اور نتائج شفاف طور پر عوام کے سامنے لائے جائیں۔ ساتھ ہی ممنوعہ مادّہ ملنے پر فوری کاروبار بند اور بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔
عوامی آگاہی مہم شہریوں کو خطرات کی آگاہی اور شکایات درج کروانے کے لیے ہیلپ لائن، موبائل ایپ یا ویب پورٹل کا فوری قیام بھی ضروری ہے۔ شہری شراکت داری  مقامی کمیونٹیز، اسکولوں اور کام کی جگہوں کے ساتھ مل کر احتیاطی تدابیر اور متبادل محفوظ چائے خانوں کی تشہیر بھی ہونی چاہیے۔ چائے کے شوقین شہریوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ اگرچہ عادت طاقتور ہے، مگر اپنی صحت کو ترجیح دیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کسی چائے خانے کی چائے کی بو، ذائقہ یا اثرات معمول سے مختلف محسوس ہوں تو اسے فوراً روک دینا چاہیے اور متعلقہ اتھارٹی کو اطلاع دینی چاہیے۔ بیک وقت یہ بھی ضروری ہے کہ سندھ فوڈ اتھارٹی عوامی تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرے اور اپنی ذمہ داریاں بروئے کار لائے  ورنہ محض نوٹس اور بیانات سے عوام کا اعتماد بحال نہیں ہوگا۔
خلاصہ یہ کہ کراچی میں کوئٹہ ہوٹل نامی ان چائے خانوں کی مقبولیت کے پیچھے ممکنہ طور پر خطرناک عوامل چھپے ہوئے ہیں، اور اگر سندھ فوڈ اتھارٹی بروقت اور مؤثر قدم نہ اٹھائے تو یہ لطف زندگی کے لیے مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔ عوام اور ادارے دونوں کی مشترکہ کوشش کے بغیر اس خطرے سے نمٹنا ممکن نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں