سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی لیاقت آباد میں تعینات AD مقصود قریشی، SBI زبیر مرتضی، BI عامر علی، روپوش بلڈنگ انسپکٹر ضیاء الرحمن اور قریبی رشتہ دار کامران مرزا سمیت جعلی BI محمد زاہد خان اور ماسٹر مائنڈ AD اویس حسین کا سپریم کورٹ کے احکامات کے برعکس غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی کر کے قومی خزانے کو اربوں کا چونا۔
اس منظم گروہ نے بے شمار غیر قانونی تعمیرات کو ٹھکانے لگایا اور کافی مقدمات میں نامزد ہوئے مگر ادارے نے ان شکاریوں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا۔
پلاٹ نمبر 5/17 اور 6/17 لیاقت آباد C1 ایریا ایک چیلنج۔۔
ڈائریکٹر جنرل ایس بی سی اے محمد یاسین شر اور وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ کی کرپشن کے خلاف جنگ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے یہ عناصر تاحال تحقیقاتی اداروں کی گرفت سے آزاد
عوام بنیادی حقوق سے محروم ہو کر تحقیقاتی اداروں سے نا امید
لیاقت آباد میں سیوریج، پانی اور بجلی کے سنگین مسائل کی وجہ ان 60 اور 80 گز کے پلاٹوں پر 4 سے 6 منزلہ عمارتوں کا جنگل
ناقص اور خطرناک تعمیرات سے لاکھوں زندگیاں غیر محفوظ
سندھ بلڈنگ کنٹرول آرڈننس 1979 اور کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ 2002 تجدید شدہ قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بغیر کسی منظور شدہ نقشے اور تصدیق کے تعمیرات عمل میں لائی گئیں
کراچی(سید طلعت شاہ) عرصہ دراز سے حکومت سندھ کے زیر انتظام ادارے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ڈسٹرکٹ سینٹرل کا عملہ غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی کرنے میں مصروف ہے۔ بالخصوص لیاقت آباد میں 60 سے 80 گز کے پلاٹوں پر 5 سے 7 منزلہ عمارتوں کا جنگل قائم کیا گیا۔ان عمارتوں کی نہ تو کسی متعلقہ ادارے سے منظوری لی گئی اور نہ ہی کوئی نقشہ پاس کر وا کر تعمیرات کی تصدیق کی گئی اس طرح ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول آرڈننس 1979 اور کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ 2002 تجدید شدہ قوانین کے کسی ایک نقطے پر کوئی عمل نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ پلاٹ نمبر 5/17 اور 6/17 لیاقت آباد C1 ایریا پر غیر قانونی پورش وہ بھی دو پلاٹوں کو ملا کر خالص رہائشی پلاٹ پر کمرشل اور ناجائز تعمیرات کی اپنی مثال آپ ہے۔ کیونکہ اس تعمیرات کو ٹھکانے لگانے والے بدنام زمانہ پاور فل لندن گروپ کے ضیاء الرحمن کے فرنٹ مین کامران مرزا ہیں اس پلاٹ پر کافی شکایات درج ہونے کے باوجود ایکشن نہیں لیا جاتا اور اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اویس حسین عرف ڈان بذات خود اس مخصوص پلاٹ کے خلاف کاروائی کو روکنے کے لیے ڈھال کا کام انجام دیتے ہیں۔ موصوف اویس حسین حال ہی میں صدر ٹاؤن کی غیر قانونی تعمیرات میں ملوث ہونے پر عدالت سے ضمانت پر ہیں اور ضیاء الرحمن بھی 7 اے ٹی دفعات بھتہ خوری کی ایف آئی آر میں نامزد ہونے کے بعد روپوش ہوگئے ہیں۔ ماضی میں بھی ان کے خلاف قانون حرکت میں آیا مگر ادارے میں دوبارہ بحالی اور غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی ادارے کے سربراہ اور وزیر بلدیات سمیت محکمہ بلدیات کے سیکرٹری کے لئے سوالیہ نشان ہے؟
لیاقت آباد کے علاقہ مکین اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہو کر بے شمار مرتبہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں درخواستیں داخل کروانے گئے مگر وہ مایوس لوٹے۔ ساتھ ہی ساتھ ڈپٹی کمشنر سینٹرل اور پھر اسسٹنٹ کمشنر لیاقت آباد کے پیش نظر شکایات کیں مگر وہاں پر موجود عملے نے اسسٹنٹ کمشنر لیاقت آباد کو گمراہ کیا جن میں مصور اور راشد شامل ہیں۔ انہوں نے غیر قانونی تعمیرات پر ایکشن سے روکا اور سائل کو ایک لیٹر نمبر:
AC/L’ABAD/36/2023
بنام ڈپٹی ڈائریکٹر SBCA تھما کر رخصت کر دیا حالانکہ ڈپٹی کمشنر بذریعہ اسسٹنٹ کمشنر غیر قانونی تعمیرات کے خلاف PP Act 2010 ,کے سیکشن 9 کے تحت کاروائی کا مجاز رکھتا ہے اور درخواست گزار کی درخواست پر عمل درآمد کرنے کا مجاز ہے اور ایف آئی آر درج کروا کر غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کرنے کا حق رکھتا ہے۔ نہ صرف سپریم کورٹ کراچی بحالی کیس میں ایسی تعمیرات کو مسمار کرنے کے احکامات جاری کر چکا ہے بلکہ تمام بلدیاتی اداروں کے قوانین کے تحت بھی یہ تعمیرات غیر قانونی ہیں۔ جس کے بر عکس صرف بلڈنگ پر ایک آرڈر چسپاں کر کے غیر قانونی تعمیراتی مافیا کو پردہ لگا کر تعمیرات کی چھوٹ دی گئی جو کہ کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس مافیا نے لیاقت آباد ایک منظم نیٹ ورک قائم کیا ہے جس میں ایک جعلی بلڈنگ انسپکٹر محمد زاہد خان کو علاقے میں غیر قانونی زیر تعمیر عمارتوں کا ڈیٹا جمع کرنے کا ٹاسک سونپا گیا جو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور بلڈروں کے درمیان معاون کے طور پر کام کرتا ہے۔ جس کے کہنے پر تعمیرات کا پیکیج نہ دینے والے کی بلڈنگ کو مسمار کیا جاتا ہے اور جو معاملات طے کر لیتا ہے اس کو غیر قانونی تعمیرات کی کھلی آزادی دے دی جاتی ہے۔ علاقہ مکین بلدیاتی اداروں میں کرپشن بالخصوص سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سمیت ڈپٹی کمشنر سینٹرل کے عملے کا ایک منظم طریقے سے غیر قانونی عمل کرنے پر مجرمانہ خاموشی اور شکایات کا ازالہ نہ ہونے پر پاکستان کی اعلٰی عدلیہ سمیت ، کور کمانڈر کراچی، پاکستان رینجرز سندھ، حساس اداروں اور وزیر بلدیات سندھ سید ناصر حسین شاہ سے سخت ایکشن لینے کی درخواست کی۔ دوسری جانب عوام عامہ و علاقہ مکین اس بات پر بھی حیران ہیں کہ جو غیر قانونی عمارتیں ابھی زیر تعمیر ہیں ان پر بھی بجلی اور گیس کے میٹروں کی تنصیب جاری ہے۔ اس مافیا کے پنجے اتنے مضبوط ہیں کہ عام آدمی کسی چھوٹے سے کام کے لئے کے- الیکٹرک جیسے عوام دشمن ادارے میں چکر لگا لگا کر تھک جاتا ہے اور ان غیر قانونی تعمیراتی مافیا کی بغیر کسی منظور شدہ نقشے اور دستاویزات کے تعمیرات سے پہلے ہی میٹر نصب کر دیے جاتے ہیں۔ جو کہ قانون نافذ والے اداروں کے لئے سوالیہ نشان ہے؟
Load/Hide Comments