سچل پولیس کراچی کی وارداتوں میں غیر ملکی گروہ سرگرم۔ عوام کی آرمی چیف سے اپیل۔

کراچی(تحقیقاتی رپورٹ) عرصہ دراز سے شہر قائد میں ڈکیتی کی وارداتوں میں غیر ملکیوں کا ملوث ہونا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ غیر ملکی بالخصوص افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ واضح رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص پاک فوج اس بات کا عزم کیا تھا کہ غیر قانونی طور پر جرائم میں ملوث غیر ملکیوں کا پاکستان سے انخلا ضروری ہے اس ضمن میں ایک گرانڈ آپریشن کیا گیا جس میں پولیس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور غیر ملکی جرائم پیشہ افراد کو ملک بدر کر کے رپورٹ جمع کروائی مگر حالیہ ڈکیتیوں کی وارداتوں میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ افراد کا سامنے آنا کسی بڑے سوالیہ نشان سے کم نہیں اور محکمہ پولیس کی کارکر کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ان ڈکیتیوں میں موبائل سنیچنگ، موٹر سائیکل لفٹنگ اور قتل کی وارداتیں شامل ہیں۔ کراچی کے معصوم شہری کچھ عرصے سے نہ صرف اپنی قیمتی اشیاء سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں بلکہ اپنی قیمتی جانوں کو بھی گواں بیٹھے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق رواں مہینے تقریبا 50 افراد ڈکیتی کے دوران اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جو کہ لا قانونیت کی ایک اعلی مثال ہے۔ شہر قائد لا قانونیت اور بے بسی کی عمدہ مثال کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے والا شہر مانا جاتا ہے اور پورے ملک کے شہری محنت مزدوری اور تجارت کی غرض سے کراچی کا رخ کرتے ہیں مگر کچھ اپنی جمع پونجی سے محروم ہو جاتے جب کہ کچھ تو اللہ کو پیارے ہو جاتے کیونکہ آج تک اس شہر کا والی وارث کوئی بن نہ سکا۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ کچھ عرصہ قبل مویشی منڈی کی تبدیلی ہوئی جو کہ سپر ہائی وے پر ایک نئی جگہ شفٹ ہو گئی تھی کراچی کی عوام نے جب مویشی منڈی کا رخ کیا تو کھلے عام ڈکیت گروہوں نے مجبور اور بے بس شہریوں کو بندوق کی زور پر لوٹنا شروع کر دیا لوگوں نے جانوروں کی قربانی چھوڑ کر اپنی جمع پونجی قربان کر دی اور اسی کو قربانی سمجھا اس دوران علاقے میں تعینات ایس ایچ او صاحب سب اچھے کی رپورٹ دیتے رہے جب کہ لوگ لاکھوں روپے کی نقدی اور موبائل فون سے محروم ہوتے رہے ۔اسی طرح سچل کے علاقے میں ایک گروہ سرگرم ہوا جس کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں کیونکہ حال ہی میں اس گروہ کا دلاور ولد محراب خان نامی ایک ڈاکو پولیس مقابلے میں زخمی ہوا جو کہ سچل پولیس کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے مگر اس کا ساتھی شریف اللہ موقع سے فرار ہو گیا۔ دوران تفتیش اس ڈاکو نے انکشاف کیا کہ اس کا تعلق افغانستان سے ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ گروہ مدینہ کالونی نزد سعدی ٹاؤن کا رہائشی ہے اور یہ علاقہ کینٹونمنٹ بورڈ ملیر کے حدود میں آتا ہے۔ اس علاقے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے عوام کی بڑی تعداد پولیس کی ناکامی پر حساس اداروں اور آرمی چیف سے اپنے جان و مال کی حفاظت کی درخواست کرتے ہوئے کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔دوسری جانب آئی جی سندھ صاحب سے کراچی کے مختلف علاقوں میں ایس ایچ او صاحبان کی تعیناتی اور ان کے روابط کی جانچ پڑتال کی التجا کرتے ہیں۔۔مزید یہ کہ ایسے گروہوں نے علاقے میں ڈکیتی کی بے انتہا وارداتیں کی جو لوگوں میں دہشت اور خوف کی علامت ہے۔ حال میں کچھ ڈکیت گروہوں نے سچل تھانے کے بالکل قریب ایک قطار میں درجنوں دکانوں اور ہوٹلوں پر بھی کھلے عام وارداتیں کی مگر پولیس سب اچھے کی ہی رپورٹ دیتی رہی۔ جہاں تک عوام سے پولیس کا تعلق ہے منت سماجت کے بعد پولیس ایف آئی آر کاٹ دیتی ہے اور اس کے بعد تفتیش کی غرض سے آپ کا مقدمہ انویسٹیگیشن پولیس کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ انویسٹیگیشن پولیس کے پاس بہت کم وسائل ہیں جس سے تفتیش میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ جدید آلات کی کمی اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات انویسٹیگیشن پولیس کے پاس موجود نہیں حتیٰ کہ تفتیش کروانی ہو تو شہریوں کو منت سماجت کرکے انویسٹیگیشن افسر کو دم چھلا بنا کر ساتھ ساتھ لے کر جانا پڑتا ہے جس سے شہری مایوس ہو جاتے ہیں اور مقدمے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہاں پر مجرم کی جیت ہوتی ہے کہ اب میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وسائل کی کمی سے کیس کی تفتیش میں تاخیر ہوتی ہے اور شواہد ضائع ہو جاتے ہیں۔یہاں پر ذرا ٹھہریے ہماری پولیس اتنی بھی گئی گزری نہیں کہ وسائل کی عدم موجودگی میں مردہ ہو جائے ۔۔۔۔ ہاں اگر بڑے صاحب کا فون آ جائے تو نا ممکن بھی تبدیل ہو کر ممکن ہو جاتا ہے اور ڈاکو اور مال مسروقہ خود چل کر تھانے پہنچ جاتا ہے ۔۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے پولیس کی قابلیت پر سوال اٹھانا بے وقوفی ہوگی۔ مثال کے طور پر ایک ڈاکو 5 جگہ ڈکیتی ڈالتا ہے اور چھٹی جگہ پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے تو ڈاکو کے زیر استعمال ذاتی موبائل کو ٹریک کر کے باآسانی یہ پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ وہ کس وقت کس جگہ موجود تھا اور جب پتہ چل جائے تو شہریوں کے مال مسروقہ کی با آسانی برآمدگی کی جا سکتی ہے اور آج کے اس جدید دور میں یہ صرف کمپیوٹر پر ایک کلک سے پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب جہاں تک موبائل اسنیچنگ کی وارداتوں کا تعلق ہے پولیس کو تفتیش میں اس بات کا پتہ لگانا پڑے گا کہ مال مسروقہ یعنی موبائل فون کے آئی ایم ای آئی نمبر کی تبدیلی کون کرتا ہے اور نئے آئی ایم ای آئی جو پی ٹی اے کے منظور شدہ ہوتے ہیں وہ کیسے نئے حاصل کیے جاتے ہیں اور اس میں استعمال کیے جانے والے پرزہ جات کہاں اور کیسے خریدے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) ہر موبائل فون کے سم کارڈ کو چلانے کے لئے باقاعدہ تصدیق کر کے اس نمبر کو قابل استعمال بناتا ہے اور یہ ایک بہت حساس طریقے سے انتہائی مضبوط ٹیکنالوجی کے ذریعے کیا جاتا ہے ۔ اس کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ادارے کے سربراہ کی تعیناتی پاک فوج کے اعلیٰ عہدیداروں میں سے کسی ایک کو پی ٹی اے کے سربراہ کا عہدہ دیا جاتا ہے ۔ آج کل بھی پی ٹی اے کے سربراہ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں جنہوں نے پاک فوج میں شاندار خدمات انجام دیں اور میجر جنرل کے عہدے پر تعینات رہے۔ دوسری جانب تفتیش کو مکمل کرنے کے لئے اس بات کا بھی پتہ چلایا جاسکتا ہے کہ ٹیکنیکی سہولت فراہم کرنے والا گروہ کون سا ہے اور اس مال کو کن کن جگہوں پہ دوبارہ فروخت کیا جاتا ہے۔ اگر ان باتوں کا تعین کر لیا جائے تو جرم پر قابو پانا آسان ہوگا۔ جہاں تک علاقے میں جرائم نیٹ ورک یا رہائشی علاقوں میں مجرموں کی آمد و رفت کا تعلق ہے اس کے لیے ایک گرینڈ آپریشن باآسانی کیا جا سکتا ہے اور مخصوص علاقوں کو جرائم سے پاک کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً مدینہ کالونی کو ہی لے لیں ۔۔ کیا غیر ملکی بالخصوص افغانستان سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ افراد کسی سے چھپ کر بنا کھائے پیئے زندگی گزارتے ہونگے؟؟ نہیں جناب، بالکل نہیں ۔۔ایک سبزی فروش بھی پولیس کو با آسانی بتا سکتا ہے کہ غیر ملکی کہاں رہائش پذیر ہیں۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ کراچی شہر میں پولیس کے بے انتہا ایماندار اور فرض شناس آفیسر موجود ہیں جنہوں نے بے شمار اندھے مقدموں کا بآسانی حل تلاش کیا اس کے بر عکس پولیس کی کالی بھیڑیں شہریوں کی پرواہ کیے بغیر ڈکیتوں، چوروں، لٹیروں، اغوا کاروں اور منشیات فروشوں کا نیٹ ورک چلاتی ہیں۔ آپریشن کے ساتھ ساتھ ادارے سے ان برے عناصر کا خاتمہ کرنا پڑے گا تاکہ شہریوں کا پولیس پر اعتماد بحال ہو۔

غیر ملکی ڈکیت کا بیان۔ جو اپنا تعلق افغانستان سے بتا رہا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں