Export Processing Zones Authority (EPZA)

دہائیوں کی لاپروائی، اربوں کا نقصان: پاکستان کی تباہ حال ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز اتھارٹی (ای پی زیڈ اے) پر گہری تحقیقات

سید طلعت اے شاہ۔

پاکستان کی ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز اتھارٹی (ای پی زیڈ اے) کے اندرونی معاملات پر ایک تحقیقاتی رپورٹ نے دہائیوں کی بدانتظامی، اسمگلنگ، اور ناکام وعدوں کی پرت در پرت کھول کر رکھ دی ہے۔ یہ ادارہ، جو غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور برآمدات کو فروغ دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا، آج خود بدعنوانی، مالی بے ضابطگیوں، اور حکومتی نااہلی کی بدترین مثال بنا ہوا ہے۔ تحقیقاتی دستاویزات کے مطابق، ای پی زیڈ اے نے ملک کو 1.2 ارب ڈالر کے نقصان سے دوچار کیا، 94% مختص زمین غیراستعمال شدہ چھوڑ دی، اور اسمگلنگ کارٹیلز کو فروغ دیا۔

حکمرانی کا زوال: ‘خالی بورڈ روم
ای پی زیڈ اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز (BoD) نے 2018 میں صرف ایک میٹنگ کی اور ستمبر 2019 کے بعد مکمل طور پر کام کرنا بند کردیا۔ 1.6 ارب روپے کے KEPZ فیز-III جیسے اہم منصوبوں کو بغیر کسی جانچ کے منسوخ کردیا گیا۔ 2018 سے 2020 تک ادارے کے 5 ایکٹنگ چیئرمین تبدیل ہوئے، جن میں عبدالجبار شاہین بھی شامل تھے جنہوں نے 17 غیرقانونی صنعتی یونٹس کی تعمیر کی اجازت دی۔ آڈٹ، رسک مینجمنٹ، اور پروکیورمنٹ کمیٹیز صرف کاغذات تک محدود رہیں۔

اہم دریافتیں:
– پبلک سیکٹر کمپنیز (کارپوریٹ گورننس) رولز 2013 کی مسلسل خلاف ورزی۔
– آڈٹ، رسک مینجمنٹ، اور پروکیورمنٹ کمیٹیز کبھی تشکیل نہیں دی گئیں۔
– بدعنوانی کی اطلاع دینے کے لیے کوئی وھسٹل بلوور پالیسی موجود نہیں۔

ایک ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا:”معاہدے واٹس ایپ میسجز کے ذریعے منظور ہوتے تھے۔” KEPZ فیز-III کے ٹھیکے دار میسز صدیق اینڈ برادرز 125 ملین روپے کی پیشگی ادائیگی کے بعد غائب ہوگئے، لیکن کوئی تحقیقات نہیں ہوئی۔ 17 سرمایہ کاروں نے 67,514 مربع میٹر قیمتی زمین 2 سے 15 سال تک بلا معاوضہ استعمال کی۔

مالی بدانتظامی: تاریک دہائی
2011 کے بعد سے ای پی زیڈ اے کا کوئی آڈٹ نہیں ہوا۔ سِلک بینک جیسی اداروں میں 1.58 ارب روپے (13.5 ملین ڈالر) کی غیرمجاز سرمایہ کاری کی گئی جو کہ بورڈ کی منظوری کے بغیر ہی ہڑپا کھا لیا گیا۔ اسٹیل ویژن جیسی بند یونٹس کے 1.3 ملین ڈالر کے واجبات اور 27.3 ملین ڈالر کے جرمانے معاف کردیے گئے۔ میسز چل چل ریگز کو 2016 میں زمین الاٹ کی گئی، مگر کبھی کام شروع نہیں ہوا۔

اعداد و شمار:
– 95 یونٹس نے اپنے ایکسپورٹ ہدف کا صرف 29% حاصل کیا۔
– ایم موجی اینڈ سنز نے 26.8 ملین ڈالر کی درآمد کی، مگر صرف 5.8 ملین ڈالر کی برآمد کی۔
– 30 غیرفعال یونٹس نے 92.7 ملین ڈالر کا ایکسپورٹ شارٹ فال پیدا کیا۔

اسمگلنگ کا گٹھ جوڑ: ای پی زیڈ اے اور کسٹم
21 یونٹس نے 28.4 ملین ڈالر کی درآمد کی مگر کچھ برآمد نہیں کیا، جس میں مقامی مارکیٹ میں مال کی غیرقانونی فروخت شامل ہے۔ کسٹم کے 12 ایف آئی آرز میں جعلی سگریٹ پیپر، اسٹیل اور ٹیکسٹائل کی اسمگلنگ کی تفصیلات ہیں۔ میسز سن گریور نے 2019 میں 1.7 ارب روپے کی غیرقانونی اشیا اسمگل کیں۔ ذرائع پورٹ قاسم نے بتایا: “استعمال شدہ کپڑے درآمد کرنے والی یونٹس مقامی فروخت کے لیے کام کرتی ہیں۔” 80:20 ایکسپورٹ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 19.6 ملین ڈالر کی غیرقانونی فروخت ہوئی۔

گوجرانوالہ ای پی زیڈ اے: 2013 سے کام کررہا ہے، مگر صرف 4.1 ملین ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔

زمینوں کی لوٹ اور فرضی پروجیکٹس
KEPZ فیز-III کا بجٹ 640 ملین روپے سے بڑھ کر 1.6 ارب روپے ہوگیا۔ ٹھیکے دار میسز نقوی اینڈ صدیقی ایسوسی ایٹس نے 6.5 ملین روپے کا فرضی مشاورتی معاوضہ وصول کیا۔ 271,915 مربع میٹر (67 ایکڑ) زمین غیر پیداواری مقاصد جیسے استعمال شدہ کپڑوں کی تجارت کے لیے دی گئی۔

مزدور آر× خان کا کہنا ہے: “فیز-III اب ویران ہے۔ میرے بیٹے روزگار کی تلاش میں دبئی چلے گئے۔” پاکستان کے ای پی زیڈ اے نیٹ ورک نے 2020 میں صرف 12 ملین ڈالر کی برآمدات کی، جبکہ بنگلہ دیش کے ڈھاکہ ای پی زیڈ اے نے 612 ملین ڈالر کی برآمدات کی۔

مزدوروں کے ساتھ دھوکہ: ‘جھوٹے وعدے’
ای پی زیڈ اے نے 30,196 نوکریوں کے وعدے کے مقابلے میں صرف 1,807 نوکریاں دیں۔ توارقی اسٹیل ملز (سعودی جوائنٹ وینچر) میں 1,000 کے بجائے 100 مزدور کام کرتے ہیں۔ سیالکوٹ ای پی زیڈ اے کے فٹبال سیونگ یونٹس میں کم عمر بچوں سے 70 ڈالر ماہانہ پر مشقت لی گئی۔

24 سالہ مزدور خاتون کا بیان: “ہم یورپ کے لیے دستانے سیتے ہیں۔ شکایت کرو تو نوکری سے نکال دیتے ہیں۔”

دبائو اور خاموشی
تحقیقاتی ٹیم کو ایف آئی آر ریکارڈز تک رسائی سے روکا گیا۔ بیوروکریٹس نے “کشتی نہ ڈولانے” کی دھمکیاں دیں۔ 16 یونٹس نے غیرقانونی تعمیرات کی، جنہوں نے 67,078 ڈالر (مارکیٹ ریٹ کا 1%) جرمانہ ادا کیا۔ سپریم کورٹ ایڈووکیٹ سید طلعت شاہ کا مطالبہ: “پی پی سی کی دفعہ 409 کے تحت مقدمات درج کیے جائیں۔”

دنیا کے ماڈلز کو نظرانداز
پاکستان نے ویت نام کے شینزین (2022 میں 340 ارب ڈالر کی برآمدات) اور بھارت کے نوئیڈا ایس ای زیڈ (بلاک چین ٹریکنگ) کے کامیاب ماڈلز کو نظرانداز کیا۔ عالمی بینک کے مشورے (انتظامیہ کی نجکاری، INTOSAI آڈٹ معیارات) پر عمل نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب معاشی ماہرین نے اصلاحات کی تجاویز دی ہے.. مگر اس پر عمل کرنا شاید نا ممکنات میں سے ہے…
– 1.6 ارب روپے کے KEPZ اسکینڈل کے ذمہ داروں کو سزا۔
– غیرفعال یونٹس سے 27.3 ملین ڈالر واجبات کی وصولی۔
– کسٹم ٹریکنگ کے لیے ریئل ٹائم ڈیٹا کا نظام۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی معاشی مستقبل کا فیصلہ کون کرے کا؟
کراچی کے ایکسپورٹ زونز پاکستان کی حکمرانی کی ناکامی کی علامت ہیں: 1.2 ارب ڈالر کا نقصان، 40,000 نوکریوں کا خواب ادھورا، اور عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد ٹوٹا.

EPZA #Karachi#

Syed Talat A. Shah is an Investigative Journalist & Author You may follow him on Twitter X @TalatLive

اپنا تبصرہ بھیجیں