کراچی کا اگلا ناظم ایک جیالا ہوگا اور ہم شہریوں کے مسائل حل کریں گے: بلاول بھٹو

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین اور وزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری نے کہا ہے کہ کراچی کا اگلا ناظم ایک جیالا ہوگا اور ہم شہریوں کے مسائل حل کریں گے۔
کراچی میں پی پی پی کے 55 ویں یوم تاسیس کے سلسلے میں منعقدہ جلسے میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ اس سال ضلعی سطح پر یا ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں پی پی پی کا یوم تاسیس منایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ نشترپارک میں کراچی کے میڈیا کو بتانا چاہتا ہوں نشترپارک کراچی کے شہریوں سے بھرا ہوا ہے اور اسی شہر میں پیدا ہوا ایک جیالا شہر کا ناظم منتخب ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی وفاق کی جماعت ہے تو کراچی کی بھی جماعت ہے اور ہمارا بھی حق ہے کہ ہم کراچی کا میئر منتخب کریں اور کراچی کے عوام کے مسائل حل کریں۔
انہوں نے کہا کہ میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے جیالوں سے مخاطب ہوں، جنہوں نے عمران خان نیازی کے ناک کے نیچے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پی پی پی نفرت کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی، پی پی پی امید اور یک جہتی کی سیاست پر یقین رکھتی ہے اور انتشار کی سیاست کو رد کرتی ہے، پی پی پی اس ملک کو جوڑتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 55 برس قبل جب پی پی پی کا پرچم اٹھایا اور ایک جنگ ہارنے کے بعد اس ملک کی قیادت سنبھالی تھی، ایک ہارے ہوئے ملک کو امید دلایا تھا، ہاری ہوئی قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس فوجی ناکامی کے بعد 90 ہزار جنگی قیدی ہمارے دشمن کے کیمپ میں تھے لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سیاست، دانش مندی، کامیاب خارجہ پالیسی سے وہ جنگی قیدی پاکستان واپس لے آئے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جنگ ہارنے کے بعد 5 ہزار مربع کلومیٹر زمین ہمارے دشمنوں کے پاس تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے وہ پاکستان کے قبضے میں واپس لایا اور آج اسی زمین سے کالا سونا تھر کا کوئلہ نکل رہا ہے اور فیصل آباد کی جو صنعتیں ہیں وہ اسی سرزمین کے کوئلہ سے بجلی پیدا کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ملک کا دفاع یقینی بنایا، یہ سیاسی کارکنوں کی کامیابی ہے کہ آج پاکستان ایٹمی طاقت ہے، مسلم دنیا میں پاکستان ایک ایٹمی پاور ہے تو وہ بھٹو اور پی پی پی کی وجہ سے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو انتشار کی نہیں بلکہ یک جہتی کی سیاست پر یقین رکھتا تھا، اس ملک کو آپس میں نہیں لڑواتا تھا بلکہ اس ملک کو جوڑتا تھا، آج بھی پاکستان کے مسائل حل کرنے ہیں، جمہوریت کو طاقت ور بنایا اور ملک کی معاشی ساکھ بہتر کرنا ہے اور خارجہ امور پر کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے تو پی پی پی کی امید اور یک جہتی کی سیاست یہ حاصل کرسکتی ہے۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ ہم نے جئے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے یحییٰ خان، ضیاالحق اور آمر مشرف کی آمریت ختم کیا اور سلیکٹڈ راج کو خداحافظ کہہ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایسی قیادت دیکھی ہے جو شہادت قبول کرے، جو پھانسی کے پھندے پر چڑھے مگر اس وقت بھی نفرت اور انتشار کی سیاست نہ کرے جبکہ آج کے نوجوانوں کو غلط بتایا جاتا ہے کہ جو لیڈرز ہوتے ہیں وہ یوٹرنز لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہی نظریہ بینظیر بھٹو آگے لے کر چلی، والد اور دونوں بھائیوں کو شہید کیا گیا، والدہ پر لاٹھی چارج اور جلاوطن کیا گیا اور خود جلاوطنی برداشت کی، اپنے شوہر کی طویل قید دیکھی لیکن پاکستان کے سیاسی کربلا میں اس سیاسی جدوجہد میں بینظیر بھٹو نے ایک دن کے لیے بھی نفرت اور انتشار کی سیاست نہیں کی اور زندگی بھر کبھی پاکستان کے خلاف کوئی نعرہ نہیں اٹھا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ آج کل لوگ انگلی کٹا کر شہادت کی منزل حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس ملک میں سیاست اگر کرنی ہے تو شہید بینظیر بھٹو سے سیکھو، جو نفرت نہیں بلکہ محبت اور امید کی سیاست پر یقین رکھتی تھی، وہ غیرت مندوں اور بہادروں کی سیاست پر یقین رکھتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو واپس آئی تھی تو کراچی میں کارساز حملہ جو آج تک پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑا دہشت گردی کا واقعہ ہے، اس واقعے پر بینظیر بھٹو پیچھے نہیں ہٹی یا انتشار یا نفرت کی سیاست شروع نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو چاہتی تو اس دھماکے کے بعد خود کو گھر میں بند کرکے کارکنوں سے ویڈیو خطاب کرسکتی تھی مگر وہ بہادر اور دلیر تھی ملک کے کونے کونے میں پہنچی اور راولپنڈی میں کھڑی ہو کر وقت کے آمر کو للکارا۔
انہوں نے کہا کہ آج کل جعلی سازش کی بات کی جاتی ہے لیکن بینظیر بھٹو کے خلاف اصلی سازش ہوتی تھی اور بار بار حکومت ختم کردی جاتی تھی مگر ایک دن کے لیے بھی نفرت یا انتشار کی سیاست نہیں کی یہاں تک ملک میں ایک بار پھر آمریت مسلط کی گئی تو وہ بھول چکی تھی کہ کس نے میرے شوہر کو جیل بھیج دیا اور کس نے میری پارٹی کے اوپر کیسز بنائے اور کس کے دور میں پارٹی کارکنوں اور شوہر پر تشدد کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر بینظیر بھٹو نفرت اور انتشار کی سیاست کرتی تو شاید یہ ممکن نہ ہوتا لیکن ملک کی سیاست اور جمہوریت کی بحالی کے لیے انہی سیاست دانوں کے پاس پہنچی جنہوں نے شوہر کو جیل میں ڈالا اور جمہوریت بحال کرنے کے لیے تحریک شروع کی۔
انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو نے ہمیں ہر کسی سے لڑنے کی نہیں بلکہ جوڑنے کی سیاست سکھائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کو ہماری آنکھوں کے سامنے راولپنڈی میں شہید کیا گیا اور ملک کے چاروں کونوں میں آگ ہی آگ تھی اور ہم چاہتے تو تب نفرت کی سیاست کرتا اور کوئی اعتراض نہیں کرتا اگر ہم نفرت اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کرتے، یہ پی پی پی، جیالوں، صدر زرداری اور میرے لیے امتحان کا موقع تھا اور موقع آیا تو صدر زرداری نے کہا پاکستان کھپے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر میں چاہتا تو کہہ سکتا تھا مجھے انتقام چاہیے میرے نانا، میرے ماموں کے قتل کا حساب دو اور ایوان صدر پر ٹوٹ پڑو اور مجھے آمر مشرف کا سر چاہیے اور اگر 27 دسمبر 2007 کو میری تقریر یہ ہوتی تو پاکستان کے ساتھ کیا ہوتا مگر بینظیر بھٹو نے ہمیں نفرت اور انتشار کی سیاست نہیں سکھائی، یہی وجہ ہے کہ میں نے کبھی ذاتی انتقام کی بات نہیں کی۔