7 سال میں پاکستان پر بیرونی قرض دو گنا سے بھی زیادہ ہوگیا

گزشتہ 7 برسوں کے دوران پاکستان کا بیرونی قرضہ 65 ارب ڈالر سے بڑھ کر 130 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔
حکومت نے واجب الاداایک ارب ڈالر قرض کی واپسی کردی ہے جب کہ سعودی عرب نے پاکستان کے ذمے واجب الادا 3ارب ڈالر کا قرضہ ری شیڈول کردیا ہے جس کے نتیجے میں فوری طور پر پاکستان بڑے معاشی بحران سے نکل آیا ہے لیکن معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی یہ مسئلہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا بلکہ عارضی طور پر ملکی معیشت پردباوٗ میں کمی آئی۔ بیرونی قرضوں کی واپسی ملک کے لئے سب سے بڑا معاشی چیلنج بن گیا ہے جس سے نبرد آزما ہونا موجودہ اور آئندہ سالوں میں بننے والی حکومتوں کادرد سر بنا رہے گا۔
پاکستان کے ایک بڑے بروکریج ہاؤس ٹاپ لائن سیکورٹیز کی جانب سے پاکستان کی معاشی صورتحال کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا معاشی مسئلہ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ نہیں بلکہ آئندہ برسوں میں واجب الادا قرضوں کی واپسی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان ہر 25 سال بعد ایک بڑے معاشی بحران سے دوچار ہوتا ہے 2008کے بعد رواں مالی سال 23-2022 بھی بڑے معاشی بحران کا منظر پیش کررہا ہے۔
رپورٹ میں آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئندہ تین سال یعنی مالی سال 2023 تا مالی سال 2025 کے دوران پاکستان کو 73 ارب ڈالر قرض کی واپسی کرنی ہے جب کہ حال یہ ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 7 سے 8 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔
پاکستان کو ان واجب الادا قرضوں کی واپسی کے لئے سعودی عرب کی طرح چین سے بھی قرضوں کی واپسی ری شیڈول کرنی پڑے گی جب کہ پیرس کلب سمیت دیگر انٹر نیشنل قرضوں کی واپسی میں مہلت کے لئے کوشش کرنی پڑے گی۔
ٹاپ لائن سیکورٹیز کے مطابق گزشتہ 7 سال میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، مالی سال 15-2014 میں بیرونی قرضوں کی مجموعی مالیت 65 ارب ڈالر تھی جو جی ڈی پی کا 24 فیصد بنتی ہے رواں مالی سال یہ قرضے 130 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جو جی ڈی پی کا 40 فیصد بنتا ہے۔
ان بیرونی قرضوں کے ساتھ اندرونی قرضے بھی شامل کئے جائیں تو پاکستان کے مجموعی قرضے 60 ہزار ارب روپے بنتے ہیں جو جی ڈی پی یعنی مجموعی ملکی پیداوار کا 90فیصد بنتا ہے، مالی سال 15-2014 یعنی سات سال پہلے یہ قرضے 20 ہزار ارب روپے کے تھے جو جی ڈی پی کا 72 فیصد بنتے ہیں۔
مزید وضاحت اس کی یوں ہوسکتی ہے کہ ہماری مجموعی ملکی پیدوار کے مقابلے میں قرضوں کی مالیت 90 فیصد تک پہنچ چکی ہے یعنی اگر ہم 100 روپے کماتے ہیں جو اس کے مقابلے میں 90 روپے ہم پر قرض ہے۔
ٹاپ لائن سیکورٹیز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ برسوں میں واجب الادا قرضوں میں 30 فیصد چینی قرضے ہیں جس کے لئے پاکستان کو چین سے تعاون حاصل کے لئے کوششیں کرنی پڑیں گی جب کہ ساتھ ہی آئی ایم ایف سے بھی آئندہ تین سے پانچ سال میں 30ارب ڈالر درکار ہوں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرونی قرضوں کی واپسی کے زیر اثر آئندہ سالوں میں بھی پاکستانی روپے پر دباوٗ برقرار رہے گا جب کہ چاہے موجودہ حکومت ہو یا آئندہ الیکشن کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت بیرونی قرضوں کا انتظام آئندہ سالوں میں بڑا چیلنج بنا رہے گا تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل سمیت دیگر اجناس کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی اور کساد بازاری میں کمی آنے کی صورت میں صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔
رپورٹ میں موجودہ سیاسی عدم استحکام کو بھی خطرناک قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے بروقت معاشی اقدامات تاخیر کا شکار ہورہے ہیں۔