سائبر کرائم ایک ایسی اصطلاح ہے جو چند دہائیاں پہلے تک عام لوگوں کے لیے اجنبی تھی۔ لیکن آج یہ لفظ ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ نے جہاں دنیا کو ایک گاؤں بنا دیا ہے، وہیں اس نے جرائم کو بھی نئی شکل دی ہے۔ اب چور، ڈاکو اور فراڈیے صرف گلیوں اور بازاروں میں نہیں بلکہ… ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں سالانہ لاکھوں افراد سائبر حملے کا شکار بنتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم انٹرنیٹ کو ایک محفوظ جگہ سمجھ کر اپنی ذاتی اور مالی معلومات بلا جھجک وہاں شیئر کر دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سائبر اسپیس بالکل ایک ایسی بھیڑ بھاڑ والی مارکیٹ کی طرح ہے جہاں دوست بھی ہیں اور جیب تراش بھی۔ مثال کے طور پر پاکستان میں کئی لوگ موبائل فون پر ایزی پیسہ یا جیز کیش استعمال کرتے ہیں۔ فراڈیے اکثر کسی بینک یا کمپنی کے نمائندے کا روپ دھار کر کال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کا اکاؤنٹ بلاک ہونے والا ہے، ابھی اپنا کوڈ بتائیں۔ جیسے ہی صارف وہ کوڈ بتاتا ہے، اس کے اکاؤنٹ کے پیسے سیکنڈوں میں اڑ جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ ڈیجیٹل دنیا کی بنیادی احتیاطی تدابیر نہیں جانتے۔ ہم پاس ورڈ ایسے رکھتے ہیں جو باآسانی اندازہ لگائے جا سکتے ہیں، جیسے ”12345“، ”password“، یا اپنی تاریخ پیدائش۔ ہیکرز کے لیے ایسے پاس ورڈ توڑنا بچوں کا کھیل ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم فری وائی فائی استعمال کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ یہ غیر محفوظ نیٹ ورک ہمیں براہِ راست ہیکرز کے رحم و کرم پر ڈال دیتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ سائبر کرائم کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ اس میں مالی فراڈ، ڈیٹا چوری، ہراسانی، شناخت کی چوری، جعلی ویب سائٹس، میل ویئر، فشنگ ای میلز اور یہاں تک کہ ریاستی اداروں پر حملے شامل ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں انٹرنیٹ کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، وہاں سائبر حملوں کے خطرات اور بھی سنگین ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر ونگ کو یومیہ سیکڑوں شکایات موصول ہوتی ہیں۔ کبھی کسی خاتون کی تصاویر ایڈٹ کر کے بلیک میل کیا جاتا ہے، کبھی کسی شہری کے بینک اکاؤنٹ سے جعلی کالز کے ذریعے پیسے نکلوا لیے جاتے ہیں اور کبھی کسی طالب علم کا فیس بک اکاؤنٹ ہیک کرکے دوستوں سے رقم بٹوری جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک معروف پاکستانی بینک کے سرورز پر سائبر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں ہزاروں صارفین کے اکاؤنٹس متاثر ہوئے اور کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح لاہور میں ایک نوجوان لڑکی کا انسٹاگرام اکاؤنٹ ہیک کر کے اس کی تصاویر لیک کی گئیں، جس کے بعد وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئی۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں، حقیقت اس سے کہیں زیادہ وسیع اور خوف ناک ہے۔ چند سال پہلے ایک عالمی رینسم ویئر اٹیک ”وانا کرائی“ کے نتیجے میں 150 ممالک کے لاکھوں کمپیوٹرز متاثر ہوئے اور کئی بڑے اسپتالوں کا نظام مفلوج ہو گیا تھا۔ اس حملے نے دنیا کو یہ باور کرایا تھا کہ سائبر سیکیورٹی اب صرف ایک آئی ٹی ایشو نہیں بلکہ قومی سلامتی کا معاملہ بھی ہے۔ سائبر سیکیورٹی دراصل اپنے ڈیجیٹل وجود کو محفوظ بنانے کا نام ہے۔ اس میں چند بنیادی اصول شامل ہیں جن پر عمل کر کے ہم اپنی آن لائن زندگی کو کافی حد تک محفوظ بنا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں مضبوط اور مختلف پاس ورڈز بنانے چاہئیں اور انہیں وقتاً فوقتاً بدلنا چاہیے۔ دوسرا، ٹو فیکٹر اتھنٹیکیشن کو ہمیشہ فعال رکھنا چاہیے تاکہ اگر پاس ورڈ چوری بھی ہو جائے تو ہیکر کے لیے اکاؤنٹ تک رسائی مشکل ہو۔ تیسرا، مشکوک ای میلز، لنکس یا پیغامات پر کبھی بھی کلک نہ کریں۔ یہ وہ جال ہیں جو ہیکرز نے ہمیں پھنسانے کے لیے بچھائے ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنی سوشل میڈیا سرگرمیوں کو بھی محتاط بنانا ہوگا۔ اکثر نوجوان اپنی ذاتی معلومات، لوکیشن یا تصاویر بلا جھجک شیئر کر دیتے ہیں۔ لیکن یہی معلومات ہیکرز یا بلیک میلرز کے لیے ہتھیار بن سکتی ہیں۔ ہمیں اپنی پرائیویسی سیٹنگز پر نظر رکھنی چاہیے اور یہ طے کرنا چاہیے کہ کون لوگ ہماری پوسٹس دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ایپس یا سافٹ ویئر ہمیشہ معتبر ذرائع سے ڈاؤن لوڈ کرنے چاہئیں اور انہیں باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کرنا چاہیے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کو سائبر سکیورٹی کی بنیادی تعلیم دیں۔ آج کے دور میں بچے سب سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں لیکن وہ سب سے زیادہ غیرمحفوظ بھی ہیں۔ کئی بار بچے نادانی میں اجنبیوں سے بات چیت کر لیتے ہیں یا کسی مشکوک لنک پر کلک کر دیتے ہیں جس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اگر والدین بچوں کو شروع سے سمجھا دیں کہ انٹرنیٹ ایک محفوظ پارک نہیں بلکہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں احتیاط ضروری ہے تو اس سے بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ سائبر کرائمز کے اثرات صرف مالی نقصان تک محدود نہیں رہتے بلکہ یہ انسان کی ذہنی صحت اور سماجی زندگی کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ کئی لوگ بلیک میلنگ یا ہراسانی کے بعد ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ معاملہ خودکشی تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے یہ مسئلہ صرف ٹیکنالوجی کا نہیں بلکہ انسانی زندگی اور معاشرت کا بھی ہے۔ نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ سائبر سیکیورٹی اب کوئی آپشن نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ جس طرح ہم اپنے گھروں کو تالے لگا کر محفوظ کرتے ہیں، اپنی گاڑی کو چابی سے بند کرتے ہیں اور اپنی جیب پر ہاتھ رکھ کر بھیڑ میں چلتے ہیں، بالکل اسی طرح ہمیں اپنی ڈیجیٹل زندگی کو بھی احتیاط کے ساتھ گزارنا ہوگا۔ دنیا تیزی سے ڈیجیٹل ہو رہی ہے، ہماری بینکنگ، تعلیم، صحت، کاروبار اور حتیٰ کہ سیاست بھی انٹرنیٹ سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر ہم نے سائبر سیکیورٹی کو نظرانداز کیا تو نقصان صرف ہمارا نہیں بلکہ ہمارے ملک کا بھی ہوگا۔ یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ انٹرنیٹ ایک دو دھاری تلوار ہے۔ یہ ہماری زندگی کو آسان بھی بنا سکتا ہے اور برباد بھی۔ فرق صرف اس بات کا ہے کہ ہم اسے کس احتیاط کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم نے سیکیورٹی کے اصول اپنا لیے تو یہ ہماری ترقی کا ذریعہ ہے، اور اگر لاپرواہی دکھائی تو یہی انٹرنیٹ ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ بھی بن سکتا ہے۔
