قبرستان کی زمین، فرقہ واریت کا شعلہ: کراچی میں “وادی حسین” کا تنازعہ

کراچی (سید طلعت شاہ) فیصل آباد کے ایک شیعہ بزنس مین کی طرف سے کراچی میں سپر ہائی وے سے بیس منٹ کے فاصلے پر عام شیعہ لوگوں کے لیے وقف کردہ “وادی حسین قبرستان” تنازع کا شکار ہو گیا ہے۔ اس اقدام کی خبر کئی ذرائع ابلاغ میں آئی تھی، جو ایک مثبت سماجی کام کے طور پر پیش کی گئی تھی۔ لیکن پھر اچانک ایک نامعلوم ‘سول سوسائٹی ایکشن کمیٹی‘ نے کراچی پریس کلب میں اس قبرستان کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے کی نوعیت اور مقاصد نے معاملے کو سنگین بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا اور کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق، اس مظاہرے کے پیچھے حکومتی ادارہ ہے۔ اس بات کو تقویت دینے والی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ مظاہرے میں شامل کچھ افراد وردی پہنے ہوئے تھے۔

عوام میں یہ قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں کہ حکومت آبادکاری کے لیے اس زمین کو قبضانے کی کوشش میں ہے اور فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرکے اپنی اس کوشش کو جواز بخشنا چاہتی ہے۔ مظاہرین میں کچھ لوگوں کی موجودگی نے شیعہ برادری میں یہ تاثر دیا ہے کہ گویا یہ مظاہرہ کالعدم قرار دی گئی تنظیم کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں سکیورٹی فورسز کا رویہ بھی تشویش ناک رہا ہے۔

اس واقعے نے کئی اہم سوالات جنم دیے ہیں۔ کیا حکومت واقعی میں اس قبرستان کی زمین حاصل کرنا چاہتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا اس کے لیے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنا ایک جائز طریقہ ہے؟حکومت کا اس معاملے میں کردار معاشرے میں اس کی ساکھ کو کس طرح متاثر کرے گا؟ کیا اس واقعے سے پاکستان میں فرقہ واریت پھر سے سر اٹھائے گی؟

ایسے معاملات میں حکومت کی غیر جانب داری اور شفافیت انتہائی ضروری ہے۔ آج کی دنیا میں معلومات چھپانا مشکل ہے اور اس طرح کے واقعات پاکستان کے بین الاقوامی امیج کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اس پر واضح اور تسلی بخش جواب دے۔

اس واقعے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں قبرستانوں کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ حکومت کو اس معاملے پر توجہ دینی چاہیے اور ضروری ہے کہ تمام برادریوں کے لیے مناسب جگہیں وقف کی جائیں تاکہ ایسے تنازعات مستقبل میں نہ اٹھیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں