شام کی ہلکی ہلکی بھوک میں اگر چائے کے ساتھ گرم گرم سموسہ بھی مل جائے تو کیا ہی بات ہو، دنیا کے کئی ممالک میں سموسہ یکساں طور پر مقبول ہے۔ سموسہ کھاتے ہوئے کبھی اس بات کا خیال آیا کہ سموسہ تکون کیوں ہوتا ہے؟ یہ سموسہ آیا کہاں سے ہے اور اس کے ذائقے کے پیچھے کون سے بڑے اور اہم راز پوشیدہ ہیں؟ ایک رپورٹ کے مطابق یہ سموسہ کوئی نیا نہیں، بلکہ صدیوں پرانی سوغات ہے۔ سموسہ پاکستان یا بھارت کی پیدا وار نہیں یہ بلکہ مشرق وسطیٰ سے بر صغیر میں آیا تھا، یعنی جب ہمارے آباؤ اجداد کہتے تھے حضور سموسہ کھائیں نا تو وہ کہیں دور کے دیس کی کہانی سنا رہے ہوتے تھے۔ اس کا ذکر ملا ہمیں ایرانی مورخ ابوالفضل بیہقی کی کتاب میں ملتا ہے جہاں اسے ’سمبوسہ‘ کہتے تھے۔وہ سموسے ایسے چھوٹے چھوٹے تھے کہ مسافر ان کو اپنے تھیلے میں رکھ کر میلوں دور کا سفر طے کیا کرتے تھے۔ مختلف علاقوں میں الگ الگ طرح کے سموسے ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ہی بازار میں مختلف دکانوں پر ملنے والے سموسوں کے ذائقہ میں کافی فرق ہوتا ہے۔ یعنی آج کا “ٹیک اَے وے” تو اس زمانے میں تھیلے میں سموسہ تھا، امیر خسرو، ابنِ بطوطہ اور مغل بادشاہوں تک نے اسے کھایا،جناب یہ اس دور کا وی آئی پی ری فریشمنٹ تھا۔ اب اگر آپ کو لگتا ہے کہ سموسہ صرف آلو والا ہوتا ہے، تو آپ کی غلط فہمی ہے، پاکستان میں سموسے بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ سموسے کے اور بھی کئی کزنز ہیں، جن میں قیمہ، چکن، چیز، حتیٰ کہ کریمی اور چاٹ والے سموسے بھی دستیاب ہیں۔ سموسہ جب تکونی شکل میں آتا ہے تو سمجھو یہ جانتا ہے کہ بھائی! مجھے اچھی طرح بند رکھو، کہیں فرائی کرتے ہوئے نہ پھٹ جاؤں! شاید یہی وجہ ہے کہ سموسہ ہمیشہ تکون ہوتا ہے کیونکہ گول یا چکور ہوتا تو تیاری کے دوران پھٹ جاتا۔ جس سے بنانے ولے کی محنت ضائع ہوسکتی تھی۔
